شندورہاتھ سے نکل رہا ہے
سطح سمندر سے تقریباً بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقعہ شندوراس وقت تنازعہ کی زد میں ہے شندورایک وسیع وعریض پہاڑی علاقہ ہے جہاں پر ہرسال شندور میلہ کاانعقاد کیاجاتا ہے اس میلہ کی خاص بات شہنشاؤں کا کھیل فری اسٹائل پولوٹورنامنٹ ہے جوکہ گلگت اورچترال کے درمیان کھیلاجاتا ہے اس کودیکھنے کے لئے نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھر سے سیاح یہاں کارخ کرتے ہیں تین روزہ شندورمیلہ 20جون سے شروع ہورہا ہے ایسے میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس میلے کا بائی کاٹ کردیا وزیرسیاحت سعدیہ دانش نے کہا کہ شندورگلگت بلتستان کا حصہ ہے اورہم اپنی ہی سرزمین پر مہمان بن کرنہیں جائیں گے سعدیہ دانش نے یہ بات بھی بتادی کہ خیبرپختونخواہ شندوراورکوہستان ک علاقوں پربھی قبضہ جمائے بیٹھا ہے انہوں نے وفاقی حکومت سے کمیشن بنانے اوربرابری کی بنیاد پر حصہ ملنے تک بائی کاٹ جاری رکھنے کااعلان کیاگلگت بلتستان 28ہزار مربع میل پرپھیلاہوا علاقہ ہے جس کے ایک طرف چین،ایک طرف ہندوستان ایک طرف تاجکستان ،افغانستان اورایک طرف کشمیراورخیبرپختونخواہ واقع ہے یکم نومبر 1947کوآزادی حاصل کرنے کے بعد یہ علاقہ صرف 16دن تک ایک آزاد ریاست کے طورپردنیائے کے نقشہ پرقائم رہا اس کے بعد اپنی حکومت برقرار نہ رکھ سکے اور وقت کے ساتھ گلگت بلتستان پرمختلف ادوارمیں مختلف حکمران کبھی پولٹیکل ایجنٹ توکبھی بیوروکریسی کی شکل میں مسلط ہوتے رہے ہیں اس علاقے کوایک طویل عرصہ تک بیوروکریسی کے رحم وکرم پررکھاگیا اورلوگوں کوسیاسی طورپرپننپے نہ دیاگیا شندورکاقصہ بھی کوئی دورکا نہیں شہید ذوالفقارعلی بھٹو کے دورتک دنیا کے اس بلندترین کھیل کے میدان میں گلگت بلتستان کی زیرنگرانی کھیل کاانعقاد ہوتا رہا اس وقت سارے انتظامات چیئرمین لطیف کہا کرتے تھے
جنرل ضیاء کے دوراقتدار میں اس میلے کے انتظامات چترال انتظامیہ کے ہاتھ میں دے دیا گیا چونکہ گلگت بلتستان میں سیاسی حکومت نہ تھی بیوروکریسی کاراج ہوتا تھا اس لئے وفاق سے جوحکم ملتا تھا اس سے ہی تسلیم کرنا پڑتا تھا 2009میں جب گورننس کے ذریعے گلگت بلتستان میں صوبائی حکومت قائم ہوئی توصوبائی حکومت نے شندور کے میلہ کے حوالے سے اسٹینڈلے لیا اورمیلے کا بائی کاٹ کردیا مگر بعد میں مرکزی حکومت نے ایک کمیشن بنائی جس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ شندور میلہ گلگت بلتستان اورخیبرپختونخواہ کی حکومت باہمی اشتراک سے کریں گے ایک بار توکھیل کا انعقاد مشترکہ طورپرکیاگیا لیکن اس سال پھرکے پی کے کی حکومت نے شندور میلہ اپنے طورپرانعقاد کرنے کافیصلہ کرلیا اورگلگت بلتستان کومہمان کے طورپرشرکت کرنے کی دعوت نامہ بھیجا جس سے گلگت بلتستان نے مسترد کردیا صرف یہ نہیں کے پی کے حکومت کی گلگت بلتستان کے سرحدی علاقوں کواپنا حصہ بنانے کے لئے ایٹری چوٹی کازورلگا رہا ہے دیامر بھاشاڈیم ہویا شندور ہرجگہ گلگت بلتستان کے علاقوں پر اپنا حق جتارہا ہے کچھ ماہ قبل ہربن اورتھور کے عوام کے درمیان لڑائی میں کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دوبیٹھے چونکہ کے پی کے پاکستان کا آئینی صوبہ ہے لیکن گلگت بلتستان سے نہیں اس لئے وفاق کے پی کے کے پلڑے کوبھاری رکھتا تھے حالانکہ تاریخی اعتبار سے بھاشا سے بصری تک اورشندورگلگت بلتستان کا حصہ ہے بقول شاعر
میں شندورکاتقاضہ کیسے کرلوں
میرے قبضہ میں بابوسرنہیں ہے
شندور کا میلہ عالمی توجہ کا مرکز بن جانے کی وجہ سے گلگت بلتستان کوبے دخل کرنے کی کوشش جاری ہے اور دوسری طرف دیامربھاشہ ڈیم بننے کی وجہ سے زمین کے معاوضہ اورڈیم کی رائیلٹی کے ہڑپ کے لئے کے پی کے کی حکومت ایک طرف چترال کے عوام کواکسارہی ہے تودوسری طرف ہربن کوہستان کے عوام کو جس کی وجہ سے مستقبل میں مزید خون خرابے کا امکان ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ مرکزی حکومت حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے مرکزی اوردونوں صوبوں کے چیدہ چیدہ شخصیات پر جرگہ بنائیں اورمعاملات کوخوش اسلوبی سے حل کریں تاکہ دونوں اطراف کے عوام بھائی چارگی اوراس کے ساتھ رہے اوراس خوبصورت میلے کوایک بارپھر مل کرمنائیں۔