کالمز

گنانی تہوار

تحریر اکرام نجمی

قدیم ادوار میں وادی ہنزہ سمیت گلگت بلتستان کے کئی علاقوں میں21 جون کو ایک روایتی تہوار گنانی منایا جاتا تھا اس روایتی تہوار کو ریاست کے میر کے زیر سرپرستی منایا جاتا تھا خود مختار ریاستی نظام کے خاتمے کے بعد یہ روایتی تہوارکئی علاقوں میں تقریبا ختم ہوچکا ہے جبکہ کچھ علاقوں میں اس تہوار کو علامتی طور پر منایا جاتا ہے ۔

علاقے کے بزرگوں کے مطابق یہ تہوار فضل پک جانے کی خوشی اور شکرانے کے طور پر 21جون کو منایا جاتاتھا جس میں ریاست کے میر اور عمائدین علاقہ ایک کھیت میں جاکر شکرانے کے دعا کے بعد جوء کے تیار فصل میں سے کچھ خوشے لیکر دربار میں حاضر ہوتے تھے اور اس نئے فصل سے ایک مخصوص قسم کا ڈوڈو بناکر دربار میں موجو دمیر اور عمائدین کو پیش کیا جاتا تھا ۔اس رسم کے ادائیگی کے بعد قلعے کے ساتھ موجو د گراونڈ جسے مقامی زبان میں لوگ چتق کہتے ہیں اس گراونڈ میں روایتی موسیقی اور رقص کاانعقاد کیا جاتا تھا جس میں باری باری ریاست کے میر ،اکابرین اور مختلف قبیلوں کے نمائندے رقص پیش کرتے تھے رقص اور روایتی موسیقی سے فارغ ہوکرشام کو لوگ اپنے گھروں میں اپنے عزیز و اقارب کو رات کے کھانے پر مدعو کرتے تھے۔

یہ خوبصورت تہوار اب کئی علاقوں میں مکمل طور تقریبا ختم ہوچکا ہے اور کچھ علاقوں میں اسکو علامتی طور پر لوگ مناتے ہیں محکمہ سیاحت اور کچھ غیر سرکاری ادارے اس تہوارکے نام پر لاکھوں روپے خرچ کرکے غیر روایتی انداز کے پروگرامز کا انعقاد کرکے ان خوبصورت روایتی تہواروں کے روح کو مسخ کررہے ہیں۔

اس تہوار میں تاریخی طور پر کلیدی کردار ریاست کے میر کا  ہوتا تھا اور اس تہوار کو ریاست کے دارا الخلافہ میں ہی منایا جاتا تھا جبکہ دیگر علاقوں کے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹے پیمانے پرتہوار مناتے تھے ۔بدقسمتی سے آجکل اس خوبصورت تہوار کے نام پر لوگ فنڈز حاصل کرکے ایک میوزیکل شو کو گنانی تہوار کا نام دیکر اس خوبصورت روایتی تہوار کے ساتھ مذاق کررہے ہیں جو اس تہوار کو دوبارہ زندہ کرنے کی بجائے ایک اور عجیب و غریب قسم کا روایت کو فروغ دے رہے ہیں جو اس علاقے کے خو بصورت روایات کے ساتھ ظلم کرنے کے مترادف ہے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میر اور میری نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن علاقے کے موسیقی تو اب بھی زندہ ہے میر وں کے محلات اب بھی سلامت ہیں اور عوام کے دسترس میں ہیں کچھ تو میوزیم کی شکل میں پوری دنیا کے سیاحوں کیلئے کھلے ہیں محکمہ سیاحت اور دیگر اداروں کو چاہیے کی ان تاریخی مقامات پر انہی مخصوص تاریخوں کو ہی یہ تہوار روایتی انداز میں منانے کی کوشش کریں ۔

اگر محکمہ سیاحت اور دیگر ادارے اپنے افسروں سیاسی رہنماؤں اور انکے اہل خانہ کی تفریح کے خاطر سیاحتی مقامات پر میوزیکل شوز منعقد کرکے علاقے کی قدیم روایات اور ثقافت کی خدمت کا دعوی کررہے ہیں تو میری نظر میں سراسر ناانصافی ہے بلکہ میرا زاتی رائے یہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے ثقافت کو مزید تباہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

محکمہ سیاحت کی یہ زمہ داری ہے کہ گنانی اور اس جیسے دیگر علاقے کے روایتی تہواروں کا باقاعدہ سالانہ بنیادوں پر کلینڈر تیار کریں اور علاقے کے تاریخ کے ماہرین سے مشورہ لیکر ان تہواروں کومکمل روایتی انداز میں منانے کی کوشش کریں ان تہواروں کے حوالے سے مقامی اور قومی اخباروں اور ٹی وی چینلز پر تشحیرہو تاکہ علاقے میں سیاحت کو حقیقی معنوں میں فروغ دیا جاسکے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. It is high time that educated people conscious of preserving their history or historical identity should come out of their negative obsession of the past political set ups especially the MIR system. Actually the whole world has come through these systems everywhere and so called democratic system is just around 150—200-years old. One should talk of the positive aspects in the rituals rather than associating them with particular personalities or systems. If particular individuals were autocratic, that was the fault of that particular person not of the system. Can’t we spot many democratic despots? Hitler was an elected leader but see how does history remember him? Therefore the rituals represent particular practices in different cultures which need to be taken in that spirit.We need to learn to see beyond our noses!!!

Back to top button