کالمز

شندور میلہ، گلگت بلتستان کابائیکاٹ

تحریر: بشیر حسین آزاد

شندور میلہ اس پسماندہ علاقے کے باشندوں کے لئے ایک تحفے سے کم نہیں۔چند دنوں کے لئے شندور میں پہ میلہ لگتا ہے گلگت اور چترال کی ہوٹلیں آباد ہوتی ہیں۔بازاروں میں رونق ہوتی ہے مزدوروں کو مزدوروی ملتی ہے ٹیکسی والے چند ٹکے کماتے ہیں۔کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔سیاحت کو فروغ ملتا ہے علاقے کا تعارف ہوتا ہے اور ملک خداداد کے ان حسین گوشوں سے دنیا والے باخبر ہوتے ہیں علاقے میں سڑکیں بنتی ہیں آمدورفت ہوتی ہے۔گلگت اور چترال میں دوریاں ختم ہوتی ہیں۔محبتیں بڑھتی ہیں دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔

shandur-polo-festivalمیں حکمرانوں کے دلوں کی بات نہیں کرتا عوام کے دلوں کی بات کرتا ہوں. جو احسا س کے اماجگاہ ہیں۔ شندور کی تاریخی حیثیت کیا ہے۔یہ سب کو پتہ ہے وہاں پر میلوں انتظامات کس کے ہاتھ میں رہے ہیں وہاں پر نگرانی کس کی ہے وہاں کا جغرافیہ کیا کہتا ہے ان سب چیزوں کا جشن شندورسے تعلق نہیں ہونی چاہیئے۔فرض کریں شندور میلے کے مختص فنڈ خیبر پختونخواہ حکومت کے ہاتھ میں ہے اس سے عوام کو کیا دلچسپی۔شندور چترال کا حصہ ہے یاگلگت کا اس سے کسی انگریز کو کیا کام۔اس کے سامنے شندور میلہ ہے ۔یہ تنازعات اگر ہیں تو ہمارے درمیان ہیں۔یہ ٹیبل پر حل ہونے والی چیزیں ہیں ان کو بنیاد بناکر شندور میلے کو متنازعہ بنانا گلگت بلتستان گورنمنٹ کو زیب نہیں دیتا۔ نہ خیبر پختونخواہ والوں۔

شندور کی ایک تاریخی حیثیت ہے اب تک شندور میلے زور وشور سے حصہ لینے والے گلگت بلتستان کے باشندے ہیں وہ اپنی روایتی زندہ دلی کا ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔چترال میں ان کی افسانوی فری سٹائل پولو کے گُن گائے جاتے ہیں ان کے باشندوں کی زندہ دلی ،خوش طبعی اور شرافت کی دھاک ہے. آج کیا شندور میلے کے بائیکاٹ میں گلگت بلتستان کے عوام کی رائے شامل ہے۔ البتہ دونوں علاقوں کے عوام پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ تنازعہ جغرافیہ کا نہیں فنڈ کا ہے اور پیسے کی تباہ کاریاں بھی سب پہ عیاں ہیں.

میری رائے میں شندور میلے کو متنازعہ بنانا دانش مندی نہیں ہے۔اگر گلگت بلتستان والے مسلسل بائیکاٹ کرتے رہیں گے تو بھی شندور میلہ بند نہیں ہوگا۔یہ ایک بین 10506951_864216893606684_6962089981040428100_oالاقوامی میلہ بن چکا ہے۔گلگت بلتستان کی ٹیموں کی جگہ ملک کی دوسری نمایاں ٹیموں کو دعوت دی جائے گی۔مذید اس کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔باہر ممالک کی ٹیموں کو یہاں بلایا جائے گا۔یہ تقریبا ملک کی پہچان بن گیا ہے.’’دنیا کا بلند ترین گراونڈ ‘‘کوئی معمولی شہرت نہیں ۔آج سکٹینگ کیلئے ،کوہ پیمائی کے لئے جھیلوں کی تلاش میں لوگ دنیا کی خاک چھان مارتے ہیں۔شندور تک پہنچنا کیا مشکل ہے۔وہاں ان کو ہرقسم کا نظارہ اور ہرقسم کی سہولت میسر ہے۔سب کی خواہش یوں ہے کہ دونوں صوبے اس کو تنازعہ بنانے کی کوشش نہ کریں۔یہ دونوں کی پہچان ہے اور ان کی تہذیبوں ،تمدن،باشندوں اور علاقے کا تعارف ہے اپنی پہچان مٹانا کہاں کی دانش مندی ہے۔

 

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button