کالمز

ریا کاری

اخبارات کا مطالعہ کر رہا تھا اور ذہن میرا نہ جانے کہاں کھو گیا تھا.  دیکھنے کو میری آنکھیں اخبار پر  جمی ہوئی تھی پر وہ اخبار میں چھپی خبریں نہیں بلکہ  میرے ذہن سے  ابھرتے ہوےءخیالات اور سوچوں کو پڑھ رہی تھیں اور یہ سوچیں اور خیالات  ان اخباری تصاویر اور خبریں پڑھ کر ہی ابھری تھیں.

آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں کسی حکومتی پراجیکٹس کے مکمل نہ ہونے کی وجوہات اور اس پر ہونے والی کرپشن کا  تذکرہ کرنے والا ہوں  یا  میں  کسی سکول میں اساتذہ کی کمی کی شکایت  کرنے والا ہوں  اور نہ ہی  کویء فنکشن  یا تقریب یا محفل مشاعرہ کی روئیداد  سنانے والا ہوں. رمضان کا مہینہ ہے اور یہ ماہ  رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ بخشش  کا بھی ہے. اللہ نے  فرمایا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس  کا اجر دونگا ۔۔اس لیے ہم مسلمان رمضان میں کچھ زیادہ ہی  ایکٹیو یا چست ہو جاتے ہیں.  اسی طرح  کچھ پکے مسلمان  ایسے بھی ہیں جو  فوٹو کی چوٹ  پر خرچ  کرتے ہیں  ان کا خرچ کیا  ہوا  دکھتا بھی ہے اور زیادہ بھی  لگتا ہے.بے شک کم ہی ہو  ….ہے نا  یہ طلسماتی بات ۔

ہدایتاسلام میں  دینے والے ہاتھ کو لینے والے سے افضل اور بہتر کہا گیا ہے اور    صدقہ خیرات اس طرحسے کی جائے کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ لگے۔ پر اس بات کا کیا چارہ کہ دوسرے شعبوں کی طرح ہماری نمازیں ، ہمارے روزے، اور  ہمارے صدقات  نے  بھی اب سیاسی  روپ دھارا ہوا ہے  اب تو  ننھی منی پنکی  تین سال کی عمر میں  فیس بک یا اخباری روزہ  رکھتی ہے. تین سال کی عمر میں روزہ رکھنا  ممکن ہے بھایئ.  زمانہ ترقی کر چکا ہے.

لو جی گُل خان سماجی  کارکن  نے اپنے گھر میں  ایک افطار کا بندوبست کیا  جس میں محلے کے روزہ دار  معززین  جن کو عموما روزوں  میں ہی شوگر  جیسی  ہیماری   لگ  جاتی ہے   بڑے ٹھاٹ باٹ سے شریک ہونگے کیونکہ افطاری کے بعد فوٹو سیشن کا خصوصی بندوبست کیا گیا ہے۔

فوٹو سیشن  اور  ریا کاری  ہمارے معاشرے کا اب ایک لازمی  جز بنتی جا رہی ہے بلکہ بن چکی ہے  ریا کاری  ہے تو  بڑی برا یئ  پر کسی کو نظر نہیں آتی ہے .  وہ اس لیے کہ  جب سب یہی کام    کر رہے ہوں تو  معیوب لگنا اور شرم محسوس کرنا کیسا ۔

ہماری گراوٹ کی انتہا دیکھیں کہ  بڑی بڑی این جی اوز سے  کھجوریں اور  خورد نوش  کی چیزیں  حاصل کر کے  مسلمانوں کی عزت نفس مجروح کرتے ہوےءاور اپنے لیے داد وصول کرنے کے لےء  آٹے کا ایک تھیلہ یا ڈالڈے کا ایک ٹین  ان کے ہاتھ میں  پکڑا دیتے ہیں  اور اسی فوٹو کو بوقت ضرورت اگلی امداد کے لیے بطور  ہتھیار استعمال میں لاکر اپنی جیبوں  کو بھرنے کی مزید کوشش۔۔۔ ہماری ان حرکات  سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے  کی اے اللہ  اور اے اللہ کے رسول  ہم تو   ماڈرن اور ترقی یافتہ دور میں داخل ہو چکے ہیں  اس لیے  اللہ کے  اجر کا  انتظار نہیں کر سکتے  کیونکہ ہمیں جلدی ہے  اور   بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو یہ بات بھی ہمیں سوٹ نہیں کرتی  اب تو ایک ہزار  دے کر اتنا ڈھنڈورا  پیٹنا ہے   کہ  وہ ایک لاکھ دکھائیدے  اور    رمضان کے مہنے میں  کچھ ایسا ہی سماں نظر آرہا ہے.

ایک جگہ  کسی این جی اوز کی طرف سے  غریبوں  ..ہاں جی بالکل غریب  گریڈ پندرہ  سولہ  میں ….. میرا مطلب  سمجھ گیے ہونگے  …… صدقہ و خیرات  کے تھیلے  تقسیم  ہو رہے تھے اور بے چارے امیر جی ہاں بلکل امیر ترین لوگ  ان کے لیے تالیاں بجا رہے تھے……. خدا کو ماننے والی یہ قوم  ظاہر پرستی کی بُری  دلدل میں دھنسی ہویء ہے لگتا  ایسا ہے کہ اب بس صرف رسمی طور پر  عقیدہ باقی رہا ہے  اور ہم  قران نماز روزہ  حج  کی روح  سے محروم ہوےء ہیں  اور اسلام کو ظاہری رسومات کا مجموعہ بنا لیا ہے.

 شاہد اسی لےء اقبال نے کہا تھا

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
روز حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button