نمائندگی
تحریر: محمد جاوید حیات
نمائندگی اپنی آخری حدوں کو چھوتی ہے تو ’’نمائندہ ‘‘پھر سے عام آدمی بن جاتا ہے۔وہی گلی کوچے وہی پکڈنڈیاں ،وہی ٹیکسی وہی میل میلاب،وہی ہاتھ ملانا،وہی گلے لگانا،وہی مشترکہ دکھ درد،وہی غمی خوشی،وہی اصل روپ ۔۔۔۔یہ نمائندگی ایک ودیعت ہے۔۔۔وہی سننے والے کان،وہی دیکھنے والی آنکھیں وہی احسا س کرنے والے دل واپس لوٹائے جاتے ہیں۔وہ سب کے دکھ کو اپنا دکھ ،سب کی خوشی کو اپنی خوشی تسلیم کرتا ہے۔سب کے گھر کا چولہا جلتا ہے تو اس کے گھر کا بھی جلتا ہے ورنہ اس کے باورچی خانے میں خاک اُڑتی ہے لیڈر شپ کا یہ سفر کم کم لوگوں کو میسر آتا ہے۔ورنہ یہ لیڈر ’’ماورائی مخلوق ‘‘ہی رہتا ہے۔اس کی قسمت میں کسی کے دل کی دھڑکنوں میں اپنا نصیب نہیں ہوتا۔اس کے حصے میں کسی کی محبت نہیں آتی۔وہ زمین میں رہتے ہوئے بھی زمین والوں سے بے خبر رہتا ہے۔اس کو کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔اس کی دنیا سمٹ کر اس کی کالی شیشے والی گاڑی کے اندرآجاتی ہے یا اس کے دل میں،اس کی سوچوں میں آشیانہ بنالیتی ہے۔یہی چھوٹی سی دنیا والا اپنے آپ کو لیڈر کہہ کر اپنے آپ کو دکھ دیتا ہے۔دنیا کے عظیم لیڈروں کے بارے میں وہ پڑھا ہوا نہیں ہوتا۔ان کے کام،ان کے نام اور کم کم تاریخ پیدائش ان کو پتہ ہوتا ہے۔ان کے کارناموں کے بارے میں سب کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ان کی لیڈر شپ ایک جگہ ٹکی ہوئی ہوتی ہے آگے سفر نہیں کررہی ہوتی سیاست عبادت ہے۔خدمت لیڈر کی پہچان ہے۔حقوق کے لئے لڑنا اس کی کارگذاری ہے۔لیڈر آگے آگے ہوتا ہے،ہر لڑائی میں یہ اس کی پہچان ہے۔وقت کے تھپڑے کھاتا ہے اگر بھوک پیاس ستاتاہو تو پہلے اس کو ستاتی ہیں۔وہ قدم اٹھاتا ہے تو وقت اس کو راستہ دیتا ہے۔روکاوٹیں ہٹتی ہیں قربانیاں سرجھکاتی ہیں۔عزم وہمت،حوصلہ اور ارادہ مضبوط ہوتا جاتا ہے۔منزل پکارتی ہے ایک قدم سے شروع ہونے والا ہزاروں سال کا سفر لمحوں میں طے ہوتا ہے۔مثالیں موجود ہیں ۔صرف 23سالوں میں فخرانبیاؐکے سامنے پوری انسانیت جھک گئی۔یہ وہ عظیم مثال ہے جس کے اردگرد عالم انسانیت گھومتی ہے۔پھر آپ ؐ کے اصحاب کبارؓ نے اس کی زندہ مثالیں قائم کرکے تشریف لے گئے۔ان کے علاوہ عقیدے اور مذہب سے ناواقف اور آزاد جنہوں نے صرف خدمت کو شعار بنایا انہوں نے بھی مثالیں قائم کیں۔ماوزے تنگ 3لاکھ کا قافلہ لے کے اُٹھا ایک سال کا سفر طے کیا دو لاکھ کی قربانی دی مگر منزل پالیا۔لینن اُٹھا تو زار روس کا چراغ بجھ گیا۔موسیٰلنی نے فرانس کے محلات ڈھادی ہٹلر عذاب بن کے ابھرا مگر اس کی لیڈر شپ مثالی تھی پھر قائداعظم جو صرف عقیدے کی بنیاد پر اللہ کانام لیکر اُٹھا اور اپنے رفقاء کو لے کے ایسا کارواں بنایا جس کی مثال نہیں ملتی۔پھر دنیا نے کتنی بار یہ تماشا دیکھا ۔گوشویرا،منڈیلہ،مہاتر محمد اور کتنے نام جن کی سانسوں میں لیڈر شپ بولتا ہے۔اسی سرزمین کے وارث محمد بن قاسم،محمد غزنوی ،سلطان التمش،قطب الدین ایبک جن کی قبریں کھود کے دیکھو وہ مٹی کے نیچے بھی زندہ ہیں۔اس خاک میں بلا کا جادو ہے۔جس کو یہ اُٹھاتی ہے امر کرتی ہے۔مگر جو خلاوں سے آکر یہاں پہ گرتا ہے تو وہ پھر اُٹھتا نہیں۔خاک میں مل کے خاک ہوجاتا ہے اس کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔