جنریشن گیپ
تحریر: الواعظ نزار فرمان علی
دورحاضر کا ایک سلگتا مسئلہ جو ہر دور میں خاندانوں اور معاشروں کو درپیش رہا ہے مگر آج کے تکنیکی و علمی معاشرے میں اسکی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے تمام معاشرتی و سماجی اداروں کے ایوانوں میں اسکی کڑیاں ملانے کے لئے ادبی و تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں۔قارئین کرام !پرانی اور نئی نسل کے درمیان پائی جانی والی خلیج یعنی زندگی گزارنے کے معاملے پر ان کے مابین ذہنی و جذباتی تعاون و ہم آہنگی کا فقدان جسکی متعدد وجوہات ہیں خاص طور پر دونوں نسلوں کا معالاتِ زندگی کو دیکھنے (لینس) اور سلجھانے کے طریقہ کار (اپروچ) کا فرق سرد جنگ (کولڈ وار ) کا باعث بنا ہوا ہے جسے سماجی علوم کے ماہرین جنریشن گیپ قرار دیتے ہیں۔عمومی صورت حال میں کسی بھی قوم کی نئی نسل کے لئے تقریباً25 سے 30 سال کی حد تصور کی جاتی ہے۔اگر اس معیار کو پیشِ نظر رکھیں تو والدین اور بزرگوں کو بھی شامل کرکے بیک وقت تین نسلیں کاروبار زندگی میں متحرک نظر آتی ہیں۔جنریشن گیپ نہ صرف اپنا وجود رکھتاہے بلکہ اس کے مظاہر تمام شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں ہیں سرکاری و نجی اداروں،تعلیمی،سماجی،کاروباری ، کھیل و فلمی صنعت کے میدانوں میں(سینئر و جونیئر) اس کے تماشے عیاں ہیں۔جب ہم نئی نسل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مرا دشجر انسانی کے وہ خوبصورت پھول ہیں جو بچپن کی حدود سے گزر کر اب شعور کی منزلوں کو طے کر رہا ہے،ان کا مسئلہ ایک نہیں کئی ہیں،مسابقت و اہلیت کے کڑے دور میں تسلسل سے آگے بڑھنا ،سماجی و معاشی امتیازات،سیاسی کشیدگی ،اخلاقی پست روی،درس گاہوں میں ملنے والی تعلیم اور عملی زندگی میں تفاوت،جیب خرچ اور معاشرے میں اپنی مخصوص پہچان بنانے کا دھن وغیرہ اور بہت کچھ ان پر سوار ہوتا ہے۔جب ہم اس مسئلے کا گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ مسائل زندگی کی طرف اپنے منفرد زاویہ نگاہ اور رد عمل خصوصاً عمر،مائینڈ سیٹ اور گوناگوں حالات زندگی کا بڑا دخل ہوتا ہے۔
بڑوں /بزرگوں کا طبقہ ماضی کی دوربین سے حال و مستقبل کو دیکھتا ہے ،دوسری طرف بچوں/ نوجوانوں کا طبقہ حال کے خام مال سے مستقبل کی عمارت تخلیق کرنا چاہتاہے،بڑوں کے مطابق زندگی گزارنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے ،اسے جینے کے لئے دانائی،بصیرت اور وسیع تجربے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے پاس ہے جبکہ نئی نسل کے خیال میں زندگی جامد یعنی ٹھہری ہوئی شے نہیں بلکہ یہ ایک ڈائنامک(متحرک) حقیقت ہے جسے گزارنے کیلئے نیا خون ،نیا عزم اور نیا ڈھنگ درکارہوتاہے جو صرف ہمارے ہاں ہے۔بزرگوں کے لحاظ سے زندگی پہلے سے کھینچی ہوئی لکیر پر بغیر دائیں بائیں دیکھے لانگ مارچ کرکے منزل کو چھونے کا نام ہے تو نوجوانوں کا ماننا ہے کہ زندگی کے اہداف (ٹارگٹس) حاصل کرنے کے لئے آئین نو کی ضرورت ہے۔طرزِکُہن کی نہیں۔بڑوں کے لئے بچوں کی انا ،ضد اور من مانیاں سر کا درد ہیں جبکہ نوجوانوں کے لئے بڑوں کے پند و نصائح فرسٹریشن کا سبب ہیں۔کیا واقعی نئی نسل اپنے اسلاف کے آدابِ زندگی کو فراموش کرکے اغیار کی ثقافت میں روپوش ہورہی ہے یا پھر بڑے اپنے فرائض میں غفلت اور ناقص حکمتِ عملی پر پردہ ڈالنے کیلئے ایسے مفروضے قائم کرتے ہیں ۔اس نہج پر جنریشن گیپ کس طرح مثبت رنگ اختیار کر سکتا ہے جبکہ اس کے بنیادی کردار کاروانِ زندگی میں متوازی طور پراپنے ٹھوس اور غیر لچکدار نقطہ ہائے نظر کے ساتھ پیش قدمی کر رہے ہوں۔میرے خیال میں اس کی ایک اہم بنیادی وجہ خاندان کے ارکان کا اپنی ذاتی زندگیوں میں ضرورت سے زیادہ مصروف رہنا ہے،سارا دن والد اپنے روزگار اور والدہ گھر کے کام کاج میں ،بچے حصول تعلیم و ہنر کی دوڑ میں تو گھر کے بزرگ بڑھاپے کی بے زاری کوکم کرنے کیلئے رشتہ دار ، یار دوستوں کے ساتھ وقت گزاری میں مگن ہوتے ہیں۔اتفاقاً کنبے کے ارکان کی اکثریت گھر میں موجود ہوبھی تو TV ، کمپیوٹر،موبائل فون یکجا افرادِ خانہ کو سیٹلائٹ شٹل میں بٹھا کر شمالاً و جنوباًبکھیر دیتا ہے،خیالی / جذباتی دنیا سے واپسی تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے کیونکہ اس وقت تک خوابوں کی دنیا میں جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے،ذرا غور فرمائیں اس نفسا نفسی کے عالم میں گھر / خاندان کو درپیش معمولی اور بڑے مسائل و اختلافات کو کیسے نمٹایا جاسکتاہے، روازانہ کھانے کے دستر خوان پر ممکن نہ ہو سکے تو کم از کم مہینے میں تعطیلات پر ایسی غیر رسمی تبادلہ خیال کی نشست سجائی جائے جس میں گھر کے نوجوانوں کو شرکت و اظہارِ خیال کا موقع ملے۔کتنے خوش قسمت ہونگے وہ بچے جنہیں والدین کے ساتھ بزرگوں کے سا یہء رحمت میں تہذیت و اخلاق کے ثمر کھانا نصیب ہوتے ہیں، بچوں کا آپس میں کھیل کود،دلچسپ شرارتوں اور موج مستی کی پھلجڑیاں،امی ابو کی ڈانٹ،پیارا ور ناز و نعم کی بھرمار تو دادا دادی کے طویل دیو مالائی قصے،سبق آموز حکایتیں اور حکمت و دانائی سے لبریز مفید باتیں یہ وہ بنیادی لوازمات ہیں جو اگر بچپن اور نوجوانی میں بروقت بطریق احسن منتقل کی جائیں تو جنریشن گیپ کے بیاباں میں الفت و ہم آہنگی کے غنچے ضرور کھلیں گے۔چونکہ ہمارے ہاں آغاز ہی سے نوجوان نسل عدم توجہی کا شکار ہونے کی وجہ سے ذہنی ، نفسیاتی و جذباتی لحاظ سے معاشرتی تقاضوں سے غیر مانوس نظر آتے ہیں۔گھریلوں تربیت کا فقدان تعمیر کی بجائے تخریب پر گامزن کر دیتاہے۔اس غیر یقینی صورت حال میں پرورش پانے والا معاشرے میں اپنے مخصوص تشخص کو قائم کرنے کیلئے مصنوعی طریقے اختیار کرلیتا ہے مثلاً فیشن ہی کو لیں ،یہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر پیش کرنے کیلئے گوناگوں طریقے اختیار کرنا ہے ۔فیشن کے مثبت اور منفی اثرات کم و بیش معاشرے کے تمام طبقات پر کسی نہ کسی صورت میں ضرور پڑتے ہیں۔لباس،مکان ،گاڑی ،فرنیچر،لیپ ٹاپ اور موبائل کے ماڈل وغیرہ،اگر فیشن ثقافت کی احیا ء کے لئے ہے تو کیا کہنااور اگر اس کا رخ خاندان و معاشرے کے تمسخر اور دل آزاری کی طرف ہو تو یہ جائز نہیں ۔فیشن کو تجربے کے طور پر مہذبانہ انداز میں اپنایا جائے تو کیا بات ہے اور اگر اس کا مقصد اپنی احساس کمتری کو ڈھانپنے اور دوسروں پر مصنوعی بھرم قائم رکھنا مقصود ہو تو یہ قابل تقلید نہیں ہوسکتا۔نوع انسانی کے کسی بھی صنف کو فیشن کے نام پراخلاقی ضابطوں سے تجاوز کرناغیر صحتمندانہ اور ناپسندیدہ عمل ہے۔نہایت معذرت سے کہنا پڑتاہے کہ آئے دن نوجوانوں کے معمولاتِ زندگی میں بڑی سرعت سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ہالی / بالی وڈ کے رنگارنگ اثرات بِنا جانچے قبولتے جارہے ہیں۔پرانی جینز، مغربی نقش و نگار سے مزین ٹی شرٹس، ترچھے بال ،کڑے اور بالیوں کا جنجال، ٹریپل سواری،اوور سپیڈ ،ون ویلنگ ،رات دیر تک فرینڈ سرکل میں بیٹھنا،انٹرنٹ اور موبائل کا بے دریغ استعمال او ر نارِ تمباکو نوشی میں کڑُھنے کے رجحانات تیزی سے سرایت کر رہے ہیں۔اگر آپ ان سے کسی فلمی ستارے کا وزن ،قد اور دولت کے متعلق دریافت کریں تو وہ سو فیصد درست جواب دیں گے۔جبکہ شاید ہی انہیں قائد اعظم،علامہ اقبال اور سرسیدکا کوئی ایک مشہور قول اس کے تاریخی حوالوں کے ساتھ معلوم ہو۔میڈیا (ڈرامہ ، فلم )کے سحر میں گھر کے بیشتر خواتین و حضرات گرفتار ہوچکے ہیں چھوٹی سی مثال غیر ملکی ڈرامے میں تلسی جب کبھی پھنسی مصیبت میں بزرگوں نے اُٹھائی تسبیح اس کے حق میں، کُم کُم کے آنسوں نے اچھوں اچھوں کو گُم سم کردیا، پڑوس میں کسی غریب کے بیٹی کی شادی پہ اتنی مسرت نہیں ہوتی جتنی وجے اور پاروتی کے ملن پر وغیرہ۔اسی طرح ہم فیس بک اور سکائپ کے ذریعے سمندر پار دوسرے براعظموں کے پردیسوں کے حالات زندگی سے ضرور مانوس ہوتے ہیں مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اپنے گھر اور گرد وپیش معاشرتی زندگی میں شامل افراد کے دکھ درد سے بیگانہ ہوتے ہیں ۔
قارئین کرام !دوسری جانب بڑے اپنے دور میں حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے خوابوں اور ادھوری خواہشات کا ملبہ بچوں کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے اُسے ہر حال میں شرمندہ تعبیر کرکے خاندان کی ساکھ بنانے کی ذمہ داری سونپتے ہیں کیا یہ ان کے ارمانوں کے ساتھ مزاق نہیں ہوگا؟۔ گھر کے سینئرزاپنے بچوں کی کارکردگی کاموازنہ دوسرے کی اولاد سے اکثر کرتے رہتے ہیں جوکہ نامناسب اندازہے،فلاں کے لڑکے کو دیکھو اور اپنی حالات پر غور کرو وہ کہاں تک پہنچاہے اور تم ٹھہرے،کندذہن اور نکمے اگر تمہارا یہی حال رہا تو کوئی اپنا اردلی بھی نہیں رکھے گا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بزرگوں کو ہمیشہ اپنی اولاد کے اعلی نمبرات ،عمدہ کارکردگی اور تعریفی اسناد سے دلچسپی ہوتی ہے۔خدا نخواستہ اوسط نتائج ،خراب کارکردگی اور کسی ذاتی مشکل و پریشانی کی صورت میں لعن طعن و طرح طرح کی سزاؤں جیسے دل شکستہ برتاؤ نوجوانوں کو تخریب و خود سوزی کی طرف مائل کر سکتاہے۔بہرکیف اس معاملے کو نہایت خوش اسلوبی سے حل کرنے کیلئے جہاں چھوٹوں کو اپنے اندرعاجزی و انکساری،برداشت و استقامت ،کم بولنے اور زیادہ سننے کی صلاحیت بڑھانا پڑے گی تودوسری طرف بزرگوں کو بھی21ویں صدی میں زندگی بسرکرنے والی نئی نسل کے مسائل و مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے مزید پیار و اعتماد ،دور اندیشی وکشادہ دلی اورباہمدگر عمل کی روشنی میں مثبت اور دوررس ہدایات کی روشنی میں ایک مثالی زندگی گزارنے کی تمنا اور جستجوکریں تو انشاء اللہ فاصلوں کو قربتوں میں،اختلافات کو اتفاقات میں اورجنریشن گیپ کو جنریشن بیوٹی اور سٹرنتھ میں تبدیل یقینی طور پر ہوگا۔ آمین