روزہ یا بھوک ہڑتال؟
اسلامی مہینوں میں رمضان سب سے مقدس اور پاک مہینہ ہے اس پاک مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ روزہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے’’ روزہ میرے لئے ہے میں خود اس کا صلہ دوں گا‘‘ ماہ رمضان کی اہم بات یہ ہے کہ اسی مہینے میں انسان خدا کا مہمان بن جاتا ہے مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ انسان اللہ سے جو چیز مانگے اسے دیتا ہے یقیناًاللہ ہر چیز پر قادر اور اللہ کی رحمت کے دروازے بندوں کیلئے کھلے ہیں۔
اسی حوالے سے ایک خوبصورت مثال یوں لیں کہ اگر ہمارے گھر میں ہمارے رشتہ دار، دوست یا کوئی اور شخص مہمان بن کر آ جاتا ہے تو ہم اس کی ہر ممکن کوشش کر کے خدمت اور مہمان نوازی کرتے ہیں، ہمارا مہمان جو چیز مانگے ہم ہر حتیٰ الامکان اس چیز کو مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ماہ رمضا ن برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے اسی پاک مہینے میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید رحمت العالمین حضرت محمد مصطفیؐ پر نازل ہوئی ہے۔ یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل ہے۔ یہ نعمتوں اور گناہوں کی معافی کا مہینہ ہے۔ اسی ماہ جنت کے راستے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بندکر دئیے جاتے ہیں۔ اس مقدس اور پاک مہینے میں ایک دوسرے کیلئے دکھ درد اور ہمدردیاں پیش کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنی چاہئے قران کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ زیادہ سے زیادہ اچھے کاموں کو بجا لانے کا مہینہ ہے۔ غریبوں، یتیموں اور مسکینوں میں روٹی تقسیم کر کے دینے کا مہینہ ہے۔ رمضان میں انسان چغلی خوری، جھوٹ، حرام خوری اور بدکاری سے بچتا ہے اسی طرح تقویٰ پیداکرتا ہے کیونکہ ہر برائی تقویٰ کے خلاف ہے پھر روزہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔ الغرض رمضان کے روزے تقویٰ تزکیہ نفس ضبط نفس اور اخلاص کا وسیلہ ہے۔ روحانی اور جسمانی صحت کا ضامن ہے یہ روزہ داروں میں صبر ایثار قناعت شکر گزاری اور غم خواری جیسی صفات حسنہ پیدا کرتا ہے۔
مگر بدقسمتی سے آج ہم ماہ رمضان کے اصل مقصد کو بھول گئے ہیں۔ کچھ افراد ماہ رمضان میں روزہ کو اپنے لئے عذاب یابوجھ سمجھتے ہیں۔ ہم مسلمان صرف ظاہری اور نام کے مسلمان ہیں عمل اور کردار سے خالی ہیں۔ روزے کا مقصد صرف بھوکا رہنا یا بھوک ہڑتال کرنا نہیں ہے۔ ہم نے صرف بھوکے رہنے کا نام روزہ سمجھا ہے۔ انسان کوہاتھ، زبان، آنکھ، منہ، کان حتیٰ کہ ہر چیز کا روزہ رکھنا ہوتا ہے۔روزہ آنکھ کا بھی ہے جو حرام نہ دیکھے۔۔۔۔کان کا روزہ جو حرام نہ سنے۔۔۔۔۔زبان کا روزہ جو گالی، غیبت، چغلی نہ ہو۔۔۔۔۔ہاتھ کا روزہ، غلط نہ کرے، نہ لکھے،نہ تولے،نہ ظلم کرے۔۔۔۔پاوءں کا روزہ، غلط محفل میں نہ جائے۔۔۔۔ ہم ادھر سے روزہ رکھتے ہیں دوسری طرف غیبت، چغلی اور دوسروں کے بارے میں پتہ نہیں کس قسم کے تبصرے اور تذکرے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ ہم روزے کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے ہی مختلف قسم کے کھانے اور تمام ضروری و غیر ضروری اشیاء جمع کرتے ہیں۔ ہم سہری میں جی بھر کر مختلف قسم کے کھانے کھاتے ہیں اور افطاری کے دوران بھی ہمارے دسترخوان پر سب کچھ موجود ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ احساس نہیں ہے کہ ہمارے سا تھ والا ہمسایہ صرف پانی سے روزہ کھول رہا ہے ،روزے میں جب ہم جی بھر کر مضبوط اور اچھے قسم کے کھانے کھائیں گے تو ایک غریب بھوکے آدمی کی بھوک کو کیسے محسوس کرینگے ۔ روزہ تو اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ امیر اور جابر حکمرانوں کو غریبوں کی بھوک کا احساس ہو کہ بھوک اور غریبی کیا چیز ہوتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم روزے کے اصل مقصد کو سمجھے اور اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ غریبوں میں کھانا تقسیم کریں۔ غریبوں اور یتیموں کو کھانا کھلایا جائے۔ ایک دوسرے کو دعوتیں دینی چاہئیں جس سے ایک دوسرے کے درمیان محبت، اتحاد اور بھائی چارگی پیدا ہو یاد رہے کہ اگر ہم نے یہ کام سرانجام نہ دیا اور صرف سحری سے لیکر افطاری تک بھوکے رہنے کا نام روزہ سمجھا تو یہ روزہ نہیں صرف بھوک ہڑتال ہے۔