عطاآباد جھیل میں ڈیکورشن پیس
شرافت علی میر
شام کواچانک 5 ماہ کی حاملہ خاتون گلنازکی طبعیت خراب ہوگئی تو ہم ان کو آغا خان ہیلتھ سنٹر گلمت لے گئے جہاں نرس نے ان کو آرام کا مشہورہ دیا. لیکن رات کو جب ان کی طبعیت زیادہ خراب ہوگئی تو دوبارہ ہم ان کو ہیلتھ سنٹر لے گئے ۔ نرس نے فون پر ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ کیونکہ علاقے میں 25 ہزار کی آبادی کے لیے ایک بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔بہرحال کچھ دوائی دیتے ہوۓ نرس نے کہا کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق مریضہ کوصبح پہلی فرصت میں علی آباد ہنزہ پہنچادو۔
وہ رات ہم نے جاگ کے گزاری. اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی تو موبائل نیٹ ورک خراب. کال ملایا تو بات نہیں ہوئی ۔ بہت کوششوں کے بعد آخر کار ایمبولنس بوٹ کے لیے متعلقہ شخص کو میسج کیا تو جواب ملا کہ ہمارے پاس تیل نہیں ہے، اسلیے مریضہ کو علی آباد تک نہیں پہنچاسکتے ہیں۔
زرا سوچیے، دو کروڑ کے ایمبولینس بوٹ جو یو۔ایس۔ایڈ نے گوجال کے عوام کو گفٹ کیا تھا اور ایک کروڑ ان کے عملہ کی تربیت پہ خرچ کیا گیا تھا لیکن اس دوکروڑ کے ایمبولینس بوٹ میں تیل ڈالنے کے لیے چند ہزار روپے حکومت گلگت بلتستان کے پاس نہیں ہیں! کیا فائدہ اس کروڑں کے ایمبولینس کا جو مشکل وقت میں کام نہ آۓ؟
اللہ کا نام لے کر ہم گھر سے نکلے تو سوچا ریسکیو 1122 سے کسی طرح رابطہ کروں میں کوشش کررہا تھا لیکن کال نہیں لگ رہا تھا. تھوڑی دیر بعد ہم کشتی اسٹنڈ پہ پہنچ گئے. میں کشتی سے اترا تو ایمبولینس بوٹ کے عملے کے ایک رکن نے کہا کہ 1122 کی کشتی تیار ہے اسی میں مریض کو لے کر چلے جاو. میں آگے چل رہا تھا کہ اس نے ایک اور مشورہ دیا. کہنے لگا، ” یہ پسنجر والی کشتی بھی ٹھیک ہے اسی میں جاو سپل وے پہ آپ کو گاڈی کی بکنگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑھے گی اس طرح علی آباد تک آپ کا پیسے بھی بچ جائیگا۔”
ان کے خیال میں جان سے ذیادہ قیمتی پیسہ ہے.
مجھے 1122 کا ایمرجنسی بوٹ نظر آیا میں نے دیکھا کہ ریسکیو 1122 کا عملہ بھی اپنے بوٹ میں موجود تھا. میں نے ان کو ہاتھ سے اشارہ کیا. مجھے دیکھتے ہی وہ ہماری طرف آۓ۔یعنی صبح 6 بجے ریسکیو ١١٢٢ کا کارکن ڈیوٹی پہ حاضرتھا۔ ہم نے ان سے کہا کہ ایمرجنسی ہے اور فورا کشتی چاہیے. کہنے لگا میں اسی کام کی تو تنخواہ لیتا ہوں. مریض کوفورا کشتی میں منتقل کر دیا گیا. ان کے الفاظ سے ہمیں تھوڑا حوصلہ ملا. ہم کشتی میں بیٹھ گئے ایمرجنسی بوٹ میں ہم نے حاملہ خاتون کو لٹایا۔ کشتی پانی کو چیرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھنے لگا. ریسکیو 1122 کا کارکن فیض اللہ ہمیں حوصلہ دے رہا تھا.۔
10 منٹ میں ہم اسپیل وے پہنچ گئے ابھی ہم سوچ رہے تھے کہ اس سے آگے کیا کریں۔ مریضہ کو ہسپتال تک پہچنانے کے لیےایمولینس تو یہاں موجود نہیں ہے، اتنے میں بوٹ نے اسٹارٹ بند کیا کشتی دوسرے کشتی کے ساتھ لگ کر رک گئی۔ہم نے مریضہ کو اٹھایا اور کنارے پر لے گئے.
ہمارے ٹرانسپورٹر آگے آگئے۔ کہنے لگے بھائی جان آجاو گاڈی میں بیٹھ جاو۔
ہم گاڈی میں بیٹھ گیے ۔ڈرائیور کو میں نہیں جانتا تھا ہمارے پریشانی دیکھتے ہوۓ ڈرائیور نے کہا بھا ئی جان فکر مت کرو ہم 20 منٹ میں علی آباد پہنچ جائنگے ابھی ہم احمد آباد کے قریب قریب پہنچ ہی گئے تھے کہ دوبارہ مریضہ کی طبعت خراب ہوگئی ۔ تھوڈی دیر کے لیے ہم نے گاڈی روک دی. الٹی ہوگئی ۔لیکن یہاں بھی ڈرائیور نے کہا بس کچھ دیر میں ہم پہنچ جائنگے ۔انشاء اللہ سب ٹھیک ہوگا۔گاڈی چل بڑی۔
تھوڈی دیر میں ہم علی آباد پہنچ گئے تھے ہم وین سے اترے مریضہ کو سہارا دے کر وین سے اتارا. میں نے جیب سے پیسہ نکالا تو ڈرائیور نے کہا بھائی پیسے کی فکر چھوڑ دے. اگر آپ کو ضرورت ہے تو میں آپ کو دے دیتا ہوں. میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اصرار کیا کہ فی الحال پیسے کا کوئی مسلہ نہیں ہے پیلز آپ بتاے کتنا دینا ہے آپ کو میرے ضد کو دیکھتے ہوۓ انھوں نے کہا چلے 1500 روپیے دے دیں ۔ 1500 روپے میرے خیال سے بہت ہی مناسب تھا ۔ کیونکہ اس وقت ماں اور بچے کی زندگی کا سوال تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
ہیلتھ سنٹر میں بھی ہمارے ساتھ بھر پور تعاون کیا دوسرے مریضوں کو چھوڈ کر پہلے ہمیں موقع دیا گیا ۔ ابتدائي علاج کے بعد ذرا ان کی طبعت سنبھل گئی تو ڈاکٹر نے کہا کہ ان کو گلگت لے جاو. ہمیں ریفر لیٹر دیا اور ہم گلگت روانہ ہوگئے ۔
گلگت ہیلیتھ سنٹر پہنچتے ہی ان کو ایڈمٹ کیا گیا مختلف ٹیسٹ اور چیکنگ کے بعد ڈاکٹروں نے ہمیں مبارکباد دی اور کہا کہ اگر آپ بروقت علاج نہیں کرتے تو صورتحال خطرناک ہوسکتا تھا۔ یہ صرف ایک مریضہ کی کہانی ہے جو کشتی اسٹنڈ سے 4 کلومیٹردرو رہتی تھی خدانہ خواستہ یہ مسلہ چپورسن یا شمشال والو ں کے ساتھ پیش آیا تو نہ جانے ان کے ساتھ کیا ہوگا۔
اس وقت عطا آباد جھیل میں یو۔ایس ۔ایڈ کی دو ایمبولینس کشتیاں کھڑی ہیں. ایک کی مالیت دو کروڈ ہے اس کے علاوہ نیٹکو کی ایک کشتی ہے جس کی مالیت بھی ڈیڑھ کروڑ بتائی جاتی ہے تین سال سے نیٹکو کی یہ کشتی اس جھیل میں کھڑی ہے اس کے علاوہ ایف۔ ڈبلیو۔او کے 3 رافٹ بھی موجود ہیں جن میں سے دو چائنا نے مہیا کیا ہے 2013 میں ان کے رافٹ سے ایک ٹرک سامان سمیت اس جھیل میں گرگئی تھی اور پھر اس کے بعد ان کو ایک ہی جگہ باندھ کر رکھا گیا ہے. 2013 میں ڈپٹی کمشنر ہنزہ نے ایک آرڑر جاری کیا تھا کہ ہر جمعہ کو رافٹ چلے گی اور مقامی لوگوں کی گاڈی اور سامان کی ترسیل کرے گی ۔ جو شائد ایک مہینہ چلا اس کے بعد بند ہوگیا اور اس کے بعد سے اب تک یہ بند ہے اور ان سب کو ایک ہی جگہ ڈیکورشن پیس کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
یو۔ایس ۔ایڈ کےایمبولینس بوٹ کو جب جھیل میں اتارا گیا تو پورے علاقے میں لوگ خوشیاں منارہے تھے کہ دیر آید درست آید اب مریضوں کو سفر کرنے میں مشکلات پیش نہیں آۓ گی ۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ ان سے بہتر وہ لکڑی کی کشتیاں ہیں جو پورا سال چلتی ہیں اور جنکی مالیت زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ ہے جب بھی ان کے پاس جاو آپریٹر بھی تیار اور تیل بھی ان کے پاس ہوتا ہے اور مصیبت میں بھی یہی لکڑی کی بنی ہوئی سامان ڈھونے والی کشتیاں کام آتی ہیں.
The corrupt Pakistani governance system prevails in every corner of the country … The Pamir Times will have to raise its voices for the good of the resource poor and disadvantaged populations across the country.
Political representatives of Hunza not only failed to give justice or protecting the rights of the people but also completely failed to provide relief particularly in health sector.From the day one of the Attabad disaster the public has showed his concerned about the lack of health facilities in Upper Gojal but even after lapse of three years the situation is standstill which is a sort of enmity with the public of the area The socalled leaders made a quick photo session in the area but intentionally ignored the emerging issues.