ہم آزادی کیسے منائیں؟
جشن آزادی پاکستان کی تیاریاں ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی زور و شور سے جاری ہیں ، لوگوں نے اپنی گاڑیوں موٹر سائیکلوں اور دکانوں کو رواں ماہ کے شروع ہوتے ہی سبز ہلالی پرچموں سے سجانا شروع کر دیا تھا، سرکاری دفاتر کو بھی اس سال جشن آزادی کو شایان شان طریقے سے منانے کیلئے سجایا جا رہا ہے، وزیر اطلاعات سعدیہ دانش نے اپنے ایک حالیہ اخباری پریس کانفرنس میں جشن آزادی کو بھر پور طریقے سے منانے کا اعلان کر دیا ہے، مسلم لیگ (ن) کی موجودہ مرکزی حکومت نے بھی اگست کے پورے مہینے میں جشن منانے کا اعلان کر دیا ہے۔
ایک طرف ملک بھر میں جشن آزادی کی تیاریاں عروج پر ہیں تو دوسری طرف مملکت خداداد میں پیدا ہونے والے نت نئے فتنوں نے ملک کی حالت ابتر کر دی ہے ، 67 سال بعد بھی ہمارے چین کے علاوہ کسی ہمسایہ ملک سے خوشگوار تعلقات استوار نہ ہوسکے ، جس کا اظہار موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کیا، حالیہ دنوں قادری گروپ ملک میں انقلاب مارچ کے ذریعے جمہوریت کی پٹڑی لپیٹنے کی کوشش کر رہا ہے، شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ،سندھ میں دہشت گردی اور ملک کے اندر فسادات اور افراتفری میں یہ قوم ایک بار پھر جشن آزادی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
ملکی صورتحال کے بر عکس اگر گلگت بلتستان کی بات کی جائے تو ایک نئی کہانی شروع ہو جاتی ہے ، یہاں یکم نومبر کو بھی آزادی اور 14 اگست کو بھی آزادی کا جشن منایا جاتا ہے، اس علاقے کے لوگ دو دفعہ تو آزادی کا جشن مناتے ہیں لیکن یہ کیسی آزادی ہے جس میں ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، بہت سے قوانین جو ملکی سطح پر قابل عمل ہیں وہ گلگت بلتستان میں نا پید ہیں ، یہاں تک کہ 1973 کا آئین بھی گلگت بلتستان کی عوام کو کئی فائدہ نہیں دے رہا ، ایک نیم خودمختار نوآبادی کی طرح گلگت بلتستان کو آج تک آئینی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان کے سکولوں میں بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی جشن آزادی کے تقاضوں اور ملک کے ساتھ محبت اور وفاداری کا سبق پڑھایا جاتا ہے، بچوں کے ذہنوں میں اپنے ملک کیلئے پیار کا جذبہ خصوصا جشن آزادی کے دن دیکھنے کو ملتا ہے ، جب چھوٹے چھوٹے بچے پاکستانی ہلالی پرچم لہراتے اور جشن آزادی کا بیج لگا کر جیوے جیوے پاکستان کے نعرے بلند کرتے ہیں ، لیکن جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ انہیں آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے تو بوجوہ وہ احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں ، ہمارے جوان مملکت خداداد کے تحفظ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے میں کسی دوسرے صوبے کے جوانوں سے کم نہیں ہیں بلکہ ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے اوپر اعتبار نہیں کیا جاتاسمجھا یہی جاتا ہے کہ ہم قوم پرست ہیں ، اور اس طعنے کو وہ لوگ ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں ،یہاں جشن آزادی پاکستان اسی طرح منایا جاتا ہے جس طرح پنجاب میں اور دوسرے صوبوں میں پھر یہاں کے لوگوں کا قصور کیا ہے، انہیں اس آزاد فضا کے ثمرات سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے، یاد رہے یہاں کا ہر فردنہ صرف اس ملک کے ساتھ وفادار ہے بلکہ اسکے تحفظ کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے بھی ہمہ وقت تیار ہے، وفاق پرست جماعتوں کا رویہ گلگت بلتستان کی آئینی بحران کی صورت حال پرانتہائی غیر سنجیدہ ہونے کی وجہ آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں میں وفاق سے دوری پیدا ہو رہی ہے، اب پہلے کی طرح لوگ جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ جشن بھی نہیں مناتے اور اسکی وجہ آجکل کا میڈیا ہے جس کے ذریعے یہاں کے لوگوں کو اپنی حیثیت کے بارے میں معلوم ہو چکا ہے ، ایسے میں جھوٹے وعدے اور اعلانات کو عوام خوب پہچاننے لگے ہیں ۔
اس وقت ملک ایک سیاسی بحران کی سی حالت سے گزر رہاہے، ایک طرف طاہر القادری کا انقلاب مارچ تو دوسری طرف عمران خان کا آزادی مارچ 14 اگست کو اس ملک کا کیا حال ہوگا کسی کو کچھ پتہ نہیں ، طاہرالقادری کے غیر سنجیدہ روئیے اور جذباتی تقاریر کی وجہ سے ملک میں اشتعال پھیل رہا ہے اور اس انتشار سے کس کو کیا فائدہ ملے گا یہ کسی کو نہیں معلوم البتہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے رونما ہونے سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں ، جڑواں شہروں کے لوگ ابھی سے گھروں میں نظر بند ہو کر رہ گئے ہیں ، جمہوریت کی گاڑی بھی ہچکولے کھانے لگی ہے ، جسے کچھ سمجھدار جماعتیں سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہیں ، جس دن پاکستان آزاد ہو ااسی دن اگرخدا نخواستہ کوئی ناخوشگوار واقع پیش آیا تو یہ اس قوم کیلئے آنے والے کئی صدیوں تک شرمندگی کا باعث ہوگا، کسی نظرئیے کے تحت اس ملک کو آزاد کرایا گیا تھا لیکن آج سب اپنی حکمرانی کیلئے نت نئے حربے استعمال کرنے لگے ہیں ، اللہ اس ملک کی سالمیت کے خلاف سازش کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنائے اور اس ملک کو ہر طرح کے انتشار سے پاک کر دے ، موجودہ صورتحال میں پاکستان کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے کسی بھی مہم کا حصہ نہ بنیں جو اس ملک کو تباہی کی طرف لے جائے ، عجیب ستم ظریفی اس قوم کی یہ ہیکہ اب کھل کر آزادی کا جشن منانا بھی محال ہو کر رہ گیاہے، جب 14 اگست کے دن لوگ ملکی حالات سے ڈرے ہوئے اپنے گھروں میں پڑے رہیں گے تو پھر جشن کو ن منائے گا۔ طاہرالقادری یا عمران خان ۔۔۔پاکستان زندہ باد ۔۔۔گلگت بلتستان پائندہ باد