کالمز

بچوں سے زیادتی کے واقعات کا سدباب کیسے ممکن ہے؟ 

صفدرعلی صفدر

گلگت بلتستان میں معمول کی خبروں سے ہٹ کر گزشتہ ہفتے ایک اہم خبرتوجہ کا مرکز بنی ، مگر بدقسمتی سے مقامی اخبارات نے اس خبرکو اس اہمیت کے ساتھ اجاگرنہیں کیا جس قدر اس کی حساسیت تھی۔ خبرکے مطابق ضلع غذر اور گلگت میں ایک ہی روز بچوں سے جنسی زیادتی کے تین الگ الگ واقعات رونما ہوئے جن میں درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں معصوم بچوں کومبینہ طورپر جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ پہلا واقعہ ضلع غذر کی تحصیل یاسین ، دوسرا پونیال جبکہ تیسرا واقعہ گلگت شہرکے ایک معروف ترین کاروباری مرکزمیں پیش آنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

اطلاعات کے مطابق متذکرہ تینوں واقعات میں مبینہ طورپر ملوث ملزمان کے خلاف متعلقہ تھانوں میں مقدمات درج کرائی گئی ہیں اور پولیس پوری جانفشانی سے ان واقعات سے متعلق کارروائی میں مصروف عمل ہے۔جبکہ انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق سے متعلق امورپر کام کرنے والی غیرسرکاری ادارے بھی ان واقعات کے حوالے سے ریاستی کارروائی کا بغورجائزہ لے رہی ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قدر حساس اور سنگین نوعیت کے واقعات رونما ہونے کے باوجود حکومتی سطح پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا نہ ہی وزیراعلیٰ یا کسی صوبائی وزیر کو ان شرمناک واقعات سے متعلق کوئی مذمتی بیان جاری کرنے کی توفیق ہوئی۔ جو نہ صرف متاثرہ خاندانوں کی دل شکنی بلکہ حکومتی بے حسی اور عوامی جان ومال کے تحفظ میں عدم دلچسپیکا منہ بولتا ثبوتہے۔

صدافسوس گلگت بلتستان کی پاکیزہ ثقافت کے محافظین اور عوامی حقوق کے علمبردار کمیٹی کے ذمہ داران پر بھی کہ جوعوامی حقوق وثقافتی اقدار کی پامالی کے خلاف تو آسمان سرپر اٹھاتے ہیں مگرمعاشرتی جبروذیادتی کے واقعات پر اس قدر خاموش رہے جیسے سانپ سونکھ گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا سفید ٹوپی کے اوپر شانٹی لگاکر ڈھول کی تھاپ پر مردوں کا رقص ہی گلگت بلتستان کی ثقافت کی علامت ہے یا پھر گندم سبسڈی کا خاتمہ یا غیرقانونی ٹیکسوں کا نفاذ ہی عوامی مسائل ہیں؟ کیا ننھے منھے بچوں کو جنسی ہوس کی پجاریوں کے ہاتھوں ذیادتی کا نشانہ بنانا یا معصوم شہریوں کی عزت وناموس کوتارتار کرنا علاقائی ثقافت کی توہین اور معاشرتی اقتدار کے منافی نہیں؟ اگر ہے تو پھر ہرطرف سے یہ پراسرار خاموشی کا کیا جواز ہے؟

ماضی میں جب کبھی بھی گلگت بلتستان یا پاکستان میں اس نوعیت کے واقعات رونما ہوئے تو حکومتی ایوانوں سے لیکر اعلیٰ عدالتوں، سماجی حلقوں سے لیکرعوام سب نے یک زبان ہوکر ان واقعات کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات لئے لوگ سڑکوں پر بھی نکل پڑے۔ چند برس قبل گلگت شہرمیں ہی ایک معصوم بچے معاویہ مجیر کے ساتھ پیش آنے والا افسوس ناک واقعہ ہو یا مجینی محلہ سے تعلق رکھنے والے ننھے حسنین کی درندوں کے ہاتھوں بیمانہ قتل کا واقعہیا ان سے ملتے جلتے دیگر واقعات ہوں، ان سب کی مشترکہ طورپر مذمت کی گئیں یا پھر ملکی سطح پر قصورمیں کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سے لیکر زینب قتل کیس تک کے تمام واقعات کو جس قدرقومی غیرت سے اجاگر کیا گیا ایسی ہمدردی اس بار گلگت اور غذر میں رونما ہونے والے واقعات میں نظر نہیں آئی۔ وجہ شاید یہی ہو کہ ان واقعات میں متاثرہ بچوں کی ذندگیاں محفوظ رہیں مگرعزت خاک میں مل جانے کے بعداس محفوظ زندگی کا آخرفائدہ کیا جوعمربھر کے لئے ایک سوالیہ نشان کے طورپر دل ودماغ کوکھٹکتا ہو۔ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں معاشرے میں عدم برداشت، لڑائی جھگڑے، جلاؤ گھیراؤ، توڈ پھوڑ، مار پیٹ اور گالم گلوچ کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے وہی پربے گناہ شہریوں اور معصوم بچوں کی عزت وناموس سے کھلواڈ بھی اب روز کا معمول بنتا جارہا ہے۔ لیکن ان واقعات کے تدارک کے لئے ملکی قوانین کی موجودگی کے باوجود عملی طورپر کوئی کا م ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم پیشہ طبقہ مضبوط سے مظبوط تراور بے بس ولاچار افراد کمزور سے کمزورتر ہوتے جارہے ہیں۔پاکستان میں بچوں سے ذیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر انسانی حقوق اور امور اطفال پر کام کرنے والی تنظیموں کوسخت تشویش ہے جن میں کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ جسمانی تشدد، جبری مشقت، کم عمری میں شادی اور بنیادی حقوق غضب کرنے کے واقعات قابل ذکرہیں۔

ان واقعات کی روک تھام کی خاطرملک کی مرکزی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے متعدد قوانین تو پاس کئے گئے مگر بدقسمتی سے دیگر قوانین کی طرح انہیں بھی کاغذوں اور فائلوں کی حد تک ہی محدود رکھا گیا۔ملک میں تعزات پاکستان کے دفعہ376اور377کے تحت بچوں سے جنسی زیادتی ثابت ہونے پر مجرم کوکم سے کم سات سال قید بامشقت اورعدالت کی مرضی کے مطابق جرمانے کی سزا ہے۔اس کے علاوہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ2016بھی ملک بھرمیں نافذ العمل ہے۔جبکہ اس حوالے سے وفاقی محتسب کے علاوہ علاقائی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن بیوروز بھی قائم کئے گئے ہیں۔ مگر حکومتی نااہلی کے سبب ان قوانین سے عوام کی ذندگیوں پر کوئی تبدیلی نہ آسکی۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ’’ ساحل‘‘ کی جانب سے جارہی اعدادوشمارکے مطابق پاکستان میں رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں مجموعی طورپربچوں سے زیادتی کے2322 واقعات رونما ہوئے جو گزشتہ سال کی اعدادوشمار کی نسبت32فیصد اضافہ ہے۔ اس حساب سے ملک میں اوسطاً بارہ سے زائد بچے روزانہ کی بنیاد پر جنسی زیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں جن میں بچیوں کی نسبت بچوں کی تعداد میں اضافہ بتایا گیا ہے۔

علاوہ ازیں دیہی علاقوں میں بعض ایسے واقعات بھی رونماہوجاتے ہیں جومقامی سطح پر متعلقہ ادارو ں کے عدم وجود یا معاشرتی مجبوریوں کے سبب رپورٹ نہیں کئے جاتے ہیں۔ ماضی میں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جنسی زیادتی کے شکاربچوں کے والدین کی جانب سے ایسے واقعات سے متعلق باضابطہ کارروائی کے لئے ریاستی اداروں سے مددکے لئے درخواست تو دی گئی مگر بعدازاں معاشرتی دباؤ کے باعث متاثرہ افراد مصلحتوں کا شکار ہوکر مقدمات واپس لینے پر مجبورہوگئے۔ ایسے میں ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان واقعات کو کسی بھی قسم کی مصالحتوں سے بالائے طاق رکھ کر پوری دیانتداری کے ساتھ اپنی کارروائی کو جاری رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورا کرے تاکہ اس سے دیگرافراد کو اس قسم کی گھناؤنی حرکتوں سے باز رہنے کے لئے سبق مل سکے۔

علاوہ ازیں صوبائی حکومت کوگلگت بلتستان میں بچوں کے حقوق اور زیادتی کے واقعات کی ممکنہ روک تھام کے لئے صوبائی سطح پر وفاقی محتسب کے دفتراورضلعی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن بیوروزکے قیام کے لئے بھی اپنی کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ ان اداروں کے ذریعے صوبائی یا وفاقی ایوانوں سے منظورکردہ قوانین پر عملدرآمدکو یقینی بناکر معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ ریاستی اداروں خاص طورپر عدلیہ اور پولیس کو ایسے واقعات پر خصوصی توجہ مرکوز کرکے بچوں سے زیادتی سے متعلق مقدمات پر بروقت کارروائی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت سزاوجزا کا تعین ہوکر انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button