کالمز

کرپٹ ترین ادارے کا ایماندار سربراہ …… لیکن!

شرافت علی میر

گھڑی باغ پل کے دوسرے طرف ایک بلند دیوار کے ساتھ گاڈیوں کی لمبی قطار میں پارکنگ اور پھر گیٹ پر پولیس کا سخت پہرہ چیکنگ کے بعد ہم اندر داخل ہوگئے۔ لوگوں کی ایک جم غفیرتنگ گلی میں ایکسکیوزمی ، پلیز زرا راستہ دینا کہہ کر ہم اس آفس تک پہنچے ادھر بھی رش تھا ۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ہم نے اپنے کام کا پوچھا تو جواب ملا ابھی نہیں ہوا ہے دو دن بعد آنا۔

یہ ادارہ ہے اکاونٹنٹ جنرل آف گلگت بلتستان کا ہے جس کو اے۔جی۔پی۔آر کے نام سے جانا جاتا ہے جس سے تمام سرکاری ملازمین اور ٹھیکداروں کا واسطہ پڑتا ہے ۔اے ۔جی پی۔آر، جس کے بارے میں ایک معلم نے کہا تھا کہ میں نے اپنی عمر کا زیارہ حصہ علم بانٹنے میں گزارا اور ریٹائیرڈ ہوتے وقت اے۔جی۔پی۔آر والوں نے رشوت لے کر مجھے بھی جہنمی بنایا۔

بحثیت مسلمان ہم اسلامیات میں پڑھتے ہے کہ رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں دوزخی ہے۔ لیکن ہمارا ایمان نہ جانے کیوں اتنا کمزور ہوگیا ہے کی ہم عملی زندگی میں آتے ہی یہ سب کچھ بھول جاتے ہے اور پھر رشوت کا بازار گرم کرتے.

بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے اس ادارے میں مردوں سے بھی پیسہ لیا جاتا ہے پیسہ دیا تو آپ کا کام فورآ ہوجائگا ورنہ روز چکر لگاو یہاں کے آفسرز ، اور کلرک تو بادشاہ ہے ہی چپراسی بھی بادشاہ ہے ۔

ایک دفعہ میرے ایک مرحوم چچا کا سروس بک اے۔جی ۔پی۔آر سے نکالنا تھا۔میں اور میرے ایک کزن نے کئی دفعہ اے۔جی۔پی ۔آر کا چکر لگایا۔ تو ہمیں تاریخ پہ تاریخ دیا گیا۔ یا پھر ہمیں ایک دوسرے کے پاس بھیجا گیا۔ آخر میں کہا گیا کہ چونکہ وہ سروس بک سٹور میں ہے اور سٹور کیپر رات کو چوکیداری بھی کرتا ہے اگر ہوسکے تو صبح سات بجے آنا ۔ ایک دن صج سات بجے میں اے۔جی۔پی۔آر کے آفس پہنچا دروازے پہ دستک دیا تو ایک آدمی نے دروازے کھولا۔ اور شینا میں کچھ پوچھا میں نے کہا مجھے شینا نہیں آتی ہے اردو میں بات کرو۔ کہنے لگے کیا بات ہے میں نے کہا چونکہ آپ ادھر سٹور کیپر بھی ہے اور میرے چچا مرحوم کا سروس بک سٹور میں ہے آپ کی مہربانی ہوگی اگر وہ مجھے دےدیں تو۔

انھوں نے مجھے سر سے پاوں تک دیکھا اور پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ میں نے کہا گوجال سے آیا ہوں۔

ہنستے ہو‎ئے کہا ادھر نہ تو کوئی سٹور ہے اور نہ کوئی سٹور کیپر۔ ان کو پیسے چاہیں. پیسےدے دو کام ہوجائیگا. یہاں پیسے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے اس نے دروازے بند کیا۔

اسی دن دفتری اوقات میں دوبارہ ان صاحب کے پاس گیااوران سے کہا کی چونکہ وہ سروس بک بہت ضروری ہے یہ لو اس پہ چاۓ پی لینا 500 روپیے ان کے ہاتھ میں ڈالا ۔

پیسے کو دیکھا اورفورا جیب میں ڈالا چہرے پہ مسکراہٹ بکھرگیا۔ اور ٹائم ضایع کیے بغیر اپنے دفتر سے نکلا اور گلی میں ڈھیر ساری فائلوں میں سے ڈھونڈے بغیر وہ سروس بک نکال کر مجھے دے دیا۔

اس وقت اے ۔جی ۔پی ۔آر کا سربراہ گل بیگ صاحب جو ایک نہایت ہی ایماندار اورقابل آفسر ہے بلکہ مخلص بھی ہے ۔۔لیکن افسوس کی ان کی ناک کے نیچے بھی یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے گل صاحب کو مو قع دیا ہے وہ چاہے تو اس نظام میں بہتری لا سکتا ہے ۔

ماضی میں کچھ اچھےاور ایماندار آفیسرز نے مثال قائم کیا ہے جن میں قربان جان صاحب کا بھی شمار ہوتا ہے ان کے بارے میں مشہور تھا کہ دفتر آتے وقت وہ پہلے اپنے ڈپارٹمنٹ کا چکر لگاتا اگر کوئی شخص غیر حاضر ہے یا اپنی سیٹھ پہ نہیں ہے تو ان کو برا بھلا کہتا اور ان کی پیشی کراتا ۔

ہم سابق ڈی۔آئی۔جی اصغر صاحب کو بھی نہیں بولے جس نے گلگت بلتستان پولیس میں میرٹ پر بھرتی کیا ۔اور ایک اچھی مثال قائم کی۔

آج کل ڈپٹی کمشنر غذر جناب راۓ منظور صاحب غذر میں جو کام کررہے ہے وہ قابل تعریف ہے انھوں نے پورے علاقے میں تمام سرکاری ملازمین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی حاضری کو یقینی بناۓ اور اس پہ سختی سے عمل پیرا بھی ہے جس سے علاقے میں بہتری آری ہے. تو کیا گل صاحب اپنے ادارے میں تبدیلی نہیں لا سکتا ہے؟

اے ۔جی۔پی۔آر ملازمین کے جائیداد اور گاڈیوں کے بارے میں کھبی کسی نے سوچا ہے کہ یہ سب کہاں سے آگیا ۔ بعض کلرک اور افسران مختلف ہوٹلوں میں لوگوں کے کام کرتے ہے یا فائل لے کر گھر جاتے ہیں. شائد یہی وجہ ہے کہ لوگ سرکاری نوکری کے لیے لاکھوں روپیے دیتے ہے اور پھر بھرتی ہوتے ہی سود سمیت وصولی شروع کرتے ہے اسی کی وجہ سے میرٹ کا قتل ہوتا ہے اور نااہل اور کرپٹ لوگ سرکاری نوکری حاصل کرتے ہے ۔

کیا ہوا گل صاجب اگرآپ رشوت نہیں لیتے یا کرپشن نہیں کرتے ہے. آپ کے ہوتے ہوۓ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔جس ادارے کا آپ سربراہ ہے اسی میں کھلےعام رشوت لی جاتی ہے تمام بلات میں اے۔جی۔پی۔آر ملازمیں کا حصہ ہوتا ہے اگر کسی بھی وجہ سے آپ اس کو نہيں روکتے ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی بلاواسطہ کرپٹ ہیں؟ کیونکہ آپ کو یہ تو معلوم ہے کہ چوری ہورہی ہے. سرعام رشوت لی جاتی ہے اے ۔جی۔پی ۔آر کے ملازمیں کام چوری کرتے ہے ۔۔شفافیت نام کی کوئی چیز آپ کے ادارے میں نہیں ہے ۔ آپ کے پاس اختیارات ہے ۔ اگر آپ اس کو استعمال نہیں کرتے ہے اگر آپ ان کو نہیں روک سکتے ہیں۔ تو پھر آپ یہ سمجھا جاۓ کہ اکاونٹنٹ جنرل آف گلگت بلتستان بھی کرپٹ آفیسر ہے ۔ پھر آپ کی ایمانداری پر بھی سوالیہ نشان لگ جائیگا؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. apne aik zaati case k lye aik poore department ko badnaam krna Selfishness he aur kuch nahi. AG-GB is doing very well. Aik din me 2000 se 2500 bandon k cases deal krne wala GB ka wahid idara AG-GB aur AGPR he jis k mulazmeen raaton ko bhi beth k logon k kaam nimtate hen lihaza Sharafat Ali sahb aik story apko nazar aati he baki 1999 cases nazar nahi aatey. Encourage nai krsakte to discourage bhi na karen. Beshak rishwat lene waaley ab bhi hen magar AG Sahb ne jo ikdamat uthaye hen ab rishwat third persons lesakte hen office k bande nai lete.

Back to top button