کالمز

عوامی ایکشن کمیٹی کو کیا ہوگیا؟

گلگت بلتستان کی تاریخ میں طویل دھرنے اور احتجاج کے زریعے وفاقی حکومت کی جانب سے خطے کے عوام کو گندم پر دی جانے والی سبسڈی بحال کرانے کا کریڈٹ لینے والی عوامی ایکشن کمیٹی کے عہدیداروں نے یاسین میں ایک قوم پرست جماعت کے سیاسی جلسے میں بھرپور انداز میں شرکت کرکے عوام میں اپنی مقبولیت بہت جلدکھوڈالی۔ گزشتہ دنوں ضلع غذر کی تحصیل یاسین میں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے خودساختہ جلاوطن رہنما عبدالحمید خان کے جان نثاران کی جانب سے بی این ایس او کنونشن کے نام سے منعقدہ جلسے میں عوامی ایکشن کمیٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے سرکردہ رہنما کامریڈ باباجان، منظور پروانہ، غلام شہزاد آغا،حاجی نائب خان اور مرکزی ترجمان وجاحت علی سمیت کئی رہنماؤں نے گلگت اور سکردو سے میلوں کا سفر طے کرکے یاسین جاکر ایک ایسی قوم پرست تنظیم کے سیاسی جلسے سے خطاب کیا جس کے سربراہ پر ملک سے غداری اور بیرونی قوتوں سے امداد لینے کا الزام ہے اور وہ خود گزشتہ12سالوں سے خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ جلسے میں عوامی ایکشن کمیٹی اور بی این ایف کے رہنماؤں نے حکومت پاکستان اور گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو نہ صرف سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ حکومت پاکستان پر خطہ گلگت بلتستان پر جابرانہ قبضہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا حالانکہ اس سے چند ہی روز قبل صوبہ بھر میں یوم آزادی پاکستان کے سلسلے میں منعقدہ تقریب میں اعلیٰ حکومتی عہدیدارن اور ذمہ دار شخصیات نے اپنی تقاریر میں برملا طور پر یہ کہہ ڈالا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے 1947ء میں ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بلامشروط پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے اور یہاں کے عوام سے بڑھ کر کوئی محب وطن پاکستانی نہیں ہے۔ادھر ہنزہ کے میر صاحب نے تو گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ غیر مشوط الحاق کے دستاویزات بھی فراہم کرنے کا دعویٰ کردیا۔خیر اس بات سے کوئی بھی ذی شعور فرد انکار نہیں کرسکتا ہے کہ خطہ گلگت بلتستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے تنازعے کے حل تک گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ممکن نہیں ہے ایسے میں یہاں کے عوام اور عوامی حقوق کے علمبردار خطے کی محروموں کا جیتنا بھی رونا روئے اس سے خطے پر قابض پاکستانی حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑسکتا ۔کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ یہاں کے لوگ علاقائی، لسانی، مسلکی اور دیگر مختلف قسم کے تعصبات اور بااثر سیاسی جماعتیں اور شخصیات مفادات کے دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور اب انہیں علاقے کی آئینی حیثیت اور اجتماعی مفادات کے حصول کے لئے ایک ہی لٹی میں پروناکوئی اسان کام نہیں تبی تو انہوں نے’’ ان کو اپنی محرومیوں کا رونا رونے دو اور خود ان پرحکمرانی کرو‘‘ والی پالیسی اپنارکھی ہے اور ادھر سے ہم خود کو سچا پاکستانی تسلیم کروانے کے لئے شواہد اور دستاویزات اکھٹے کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

SAFDAR ALI SAFDARمجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے چند برس قبل گلگت بلتستان کی مکمل آزادی اور آئینی حقوق کے حصول لئے لوگوں کے اندر ایک جنون پایا جاتا تھا اور عنایت اللہ خان شمالی، میجر ریٹائرڈ حسین شاہ، امان اللہ خان، ڈاکٹر مظفر ریلے، سید یحیٰ شاہ،ایس ایس پی ریٹائرڈ امیر حمزہ(مرحوم)، کرنل (ر) وجاحت حسن خان،کرنل (ر) نادر حسن اور نوزخان ناجی سمیت علاقے کی انتہائی اہم اور متعبر شخصیات اس ضمن میں پیش پیش نظر آرہے تھے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حصول کے لئے کئی قوم پرست تنظیمیں بھی معروض وجود میں آئی تھیں لیکن آہستہ آہستہ یہ سب تنظیمیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر زوال پذیری کا شکار ہو ئیں اور ان تنظیموں سے وابستہ افراد نے قومی حقوق کی ٹھیکہ داری سے کنارہ کشی اختیار کرلی

۔یوں اب قوم پرستی صرف گنے چنے لوگوں تک ہی محدود ہو کررہ گئی۔آج مجھے صوبائی دارالخلافہ میں بالاورستان نیشنل فرنٹ (حمید) گروپ کے اپنے ہم نام صفدر علی اور برہان، بلتستان میں منظور پروانہ اور غلام شہزاد آغا، غذر میں نواز خان ناجی اور ان کے چند کارکن، ہنزہ نگر میں کامریڈ بابا جان جبکہ استور اور دیامر میں کوئی قابل ذکر شخصیات نظر نہیںآرہی ہیں اور ان کی سرگرمیاں بھی صرف اخباری بیانات کے زریعے وفاق پرست سیاستدانوں پر تنقید کرنے کی حد تک رہ گئیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک زمانے میں قوم پرست تنظیموں کی جانب سے صوبائی دارالخلافہ اور دیگر شہروں میں بڑے بڑے جلسے منعقد ہواکرتے تھے اور ان جلسوں کی پیشگی اطلاع سن کر ریاستی اداروں اور انتظامیہ کی دوڑیں لگ جاتی تھیں جو اب سمٹ کر تحصیل سطح پر منعقد ہونا شروع ہوئے اور ان کی اطلاعات سن کر کسی کے سرپر جوویں تک نہیں رینگتی،آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟ میرا مطلب قوم پرستوں پر تنقید کرنا یا ان کی مخالفت ہرگز نہیں بلکہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام میں قوم پرستی اور اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کے رجحان میں کیونکر کمی آرہی ہے؟ 

دوسرا اہم نکتہ جو آج کے اس کالم کا نہ چاہتے ہوئے موضوع بن گیا ،وہ یہ کہ رواں سال گندم سبسڈی کی بحالی کی غرض سے جب گلگت میں عوامی ایکشن کمیٹی وجودمیں آئی تو بہت سے حلقوں کی جانب سے اس تحریک کے پیچھے قوم پرستوں کا ہاتھ کارفرما قرار دیا گیا یہاں تک کہ حکومتی عہدیداران کی طرف سے بھی یہ موقف سامنے آیا جس پر ہم نے جب پریس کانفرسوں میں عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے سامنے یہ سوال اٹھایا تو یہ لوگ قسمیں کھانے پر تیار ہوئے کہ ان کا کسی بھی واحد جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ایکشن کمیٹی مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں کا ایک مشترکہ پلیٹ پارم ہے ۔ اگر ایسا تھا تو پھر آج ایک قوم پرست تنظیم کے تحصیل سطح کے کنونشن میں جاکر ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کوبھڑکیں مارنے کی کیا ضرورت تھی؟اگر ان کو عوامی اجتماعات اور جلسے جلوس سے خطاب کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو شہر میں ہر ہفتے اس قسم کی سرگرمیا ں منعقد ہوتی ہیں ، یہ لوگ اس وقت کہا سوئے ہوتے ہیں؟ یہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ایم کیوایم،تحریک انصاف، مجلس وحدت مسلمین،سنی اتحاد کونسل یا کسی مذہبی جماعت کے اجتماع سے خطاب کیوں نہیں کررہے ہیں؟

میں یہاں پر اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہونگا کہ شروع میں عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے جذبات دیکھ کرعوام کے اندر خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی کہ اب تو یہ لوگ اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے اور عوام کو مسائل سے نجات دلائیں گے لیکن گندم سبسڈی کا مسلہ حل ہوتے ہی عوامی ایکشن کمیٹی منظرعام سے غائب ہوئی اور چارٹر آف ڈیمانڈ کہیں کا رہ گیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایکشن کمیٹی کے عہدیدار گندم سبسڈی کا مسلۂ حل ہونے کے ساتھ ہی ا پنے اسی جوش وجذبے کے ساتھ دیگر مطالبات پر بھی ڈے رہتے توعوام کے بیشتر مسائل اب تک حل ہوچکے ہوتے اور ایکشن کمیٹی جو چاہتی عوام اس پر لبیک کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے ۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے یک دم حمید خان کے ساتھ ملکر آزاد ریاست اور آئینی حقوق کا بیڑا اٹھانے کی ٹھان لی ۔ میرے خیال میں اس طرح کا نامکمل ایجنڈا لیکر کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ عوام میں مقبولیت اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے پہلے تو محلہ،گاؤں،شہر،تحصیل اور ضلعی سطح کے چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لئے علاقہ مکینوں کی مدد اور رہنمائی کی جاتی ہے پھر صوبائی اور ملکی سطح کے مسائل کے حل کے لئے عوام خودبخود آگے آجاتے ہیں جسکی مثال عمران خان اور علامہ طاہر القادری

کے حالیہ لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ آپ عمران خان ہی کی مثال لیجیے جنہوں نے پندرہ سال مسلسل جدوجہد کے بعد آج ایک صوبے میں حکومت بنا ڈالی اور پھر پورے ملک کا نظام تبدیل کرنے نکلے تو کارکن اور عوام ان سے دس قدم آگے نکل پڑے جس سے بہت بڑی نہیں تو تھوڑی بہت تبدیلی توآجائیگی۔

لہذا میری عوامی ایکشن کمیٹی کے کنونئیر محترم احسان علی ایڈووکیٹ اور دیگر زمہ داران سے یہ گزارش ہے کہ اگر وہ عوامی ایکشن کمیٹی کو آگے لے کر چلنے میں مخلص ہیں توپہلے کمیٹی کے اندر وجود خامیوں کو دور کرکے اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کرانے کے لئے ایک ایجنڈے پر متحرک کریں پھر بین الاقوامی سطح کے مسائل حل کرانے کی حکمت عملی اپنائے۔ نہیں اگر عوامی ایکشن کمیٹی صرف گندم سبسڈی کی بحالی کی غرض سے ہی وجود میں آئی تھی تو اس تمام تر دماغ خراشی کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔ 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button