انقلاب
انقلاب کا انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھک گئی ہیں. وہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا. نہ جانے کیوں روٹھا ہے۔۔
انقلاب سے آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں حال ہی میں اسلام آباد میں آزادی مارچ یا انقلاب کی بات کر رہا ہوں اسلام آباد میں جاری انقلاب کا بھی میرے دل میں موجود انقلاب جیسا حال ہے کئی دن ہو چلے ہیں انتظار میں ۔۔اس انقلاب اور آزادی مارچ میں پرانا اور نیا پاکستان کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن میں جس انقلاب کی بات کر رہا ہوں وہ انقلاب کچھ اور ہے کیونکہ میرے انقلاب میں پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کا عنصرشامل نہیں وہ اس لئے کہ اگر نیا پاکستان بن بھی جاتا ہے تو مجھے اس سے کچھ بھی فائدہ حاصل ہونے کی امید نہیں تو کیوں اپنا سر کھپا ئو ں کہ کون آتا ہے کون جاتا ہے ۔۔۔
لیکن ایسا بھی میرے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ ان حالات کو نظرانداز کروں اور شائد ایک ذی شعور کے لئے یہ ممکن بھی نہیں کہ اس کو نظر انداز کر سکے ۔۔۔ میں نے سوچا کہ اسلام آباد میں انقلاب لانے والوں کے حالات اور واقعات سے اپنے دل میں اٹھے ہوئے انقلاب کا موازانہ کروں تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ اصل انقلاب کی کس کو ضرورت ہے ۔انقلاب کی بات چلی ہے تو مجھے اٹھاسٹھ سال پرانا انقلاب بھی یاد آرہا ہے جس کی مدت صرف پندرہ دن ہی رہی اور وہ انقلاب بھی ہم سے ایسا روٹھا کہ پھر مڑ کے دیکھا بھی نہیں اور ہم بھی ایسے غافل ہوئے کہ اس کو منانے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔آج مجھے رہ رہ کر اس انقلاب کی یاد بڑی تڑپا رہی ہے۔ کیوں?
اس لئے کہ جب ایک ملک جس کو پاکستان کہتے ہیں جہاں لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل ہوں جن کو ووٹ کا حق حاصل ہو اور جن کو رموز مملکت میں دسترس بھی ہو وہ صرف الیکشن میں دھاندلی کی بنیاد پر نیا پاکستان اور پرانے پاکستان اور ایک منتخب وزیرآعظم کو زبردستی کرسی سے اتارنے پر بضد ملک کے مرکز پر زندگی مفلوج کر کے ابھی تک براجمان ہیں تو اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ میں جس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں جو ابھی تک شناخت سے محروم ہو ،ووٹ کا حق تو کجا بنیادی حقوق اور بنیادی سہولتوں سے یکسر خالی ہو تو اس کے ذہن میں انقلاب کا تصور نہیں ہوگا تو پھر کیا ہوگا ۔۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ جو میں سوچ رہا ہوں۔کیا جی بی میں رہنے والے باسی بھی وہی سوچ رہے ہیں ۔۔اس خیال کے آتے ہی جب میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو میری حیرانگی بڑھ جاتی ہے۔۔اس لئے نہیں کہ انقلاب نہیں آئیگا بلکہ اس لئے کہ جی بی کے مکینوں کے ذہنوں میں انقلاب برپا کرنے کی سوچ کی رمق ابھی تک جاگی نہیں ہے بلکہ انقلاب لانے والوں کے بیج میں گھس کر انقلاب کے مزے لوٹ لینے کی سوچ حاوی ہے ۔۔ جس کا نظارہ حال ہی میں ایک پارٹی کا گلگت راولپنڈی روڈ کو انقلاب کے لئے بلاک کرنا اور پھر اس کے مقابلے میں ایک اور پارٹی کا اس انقلاب کوتہس نہس کرنے کے لئے ایک جلوس کا انتظام کرنا ۔ اس کو مفادات حاصل کرنے کی بہترین مثال قرار دے سکتے ہیں ۔۔۔
مجھے دونوں پارٹیوں پہ اعتراض نہیں بلکہ خوش ہوں کہ چلو کسی نہ کسی طرح انقلاب کی سوچ تو ہے لیکن اس سوچ میں ضرور پڑ جاتا ہوں کہ جس انقلاب کا میں سوچ رہا ہوں کیا کبھی وہ آسکے گا۔۔۔آپ بھی سوچیں کہ اس انقلاب کے برپا کرنے کے لئے جی بی کے عوام کو کن کن اشیاء کی ضرورت ہے.