کالمز

برنداس (یاسن) سے جڑی دیومالائی کہانی اور حقیقت

تحریر ۔ ظفراقبال

یاسن ایک تاریخی جگہ ہے ،اس کی تاریخ بڑی پراشوب رہی ہے۔سال کے چھ مہنے یہ علاقہ شديد سردی کی لپیٹ میں ہوتی ہے۔ درجہ حرارت دسمبر، جنوری میں منفی 10 ڈگری تک گر جاتی ہے۔برکلتی یاسن کا ایک تاریخی جگہ ہے، کیونکہ ریاست ورشگوم کا پایہ تخت ڈورکھن کے علاوہ زیادہ تر اوقات میں برکلتی ہی رہا ہے۔گیارہویں صدی عسوی میں یاسن اور غذر میں اسلام کا ظہور ہوا۔پیر ناصر خسرو جب سلجوقیوں کی نوکری ترک کر کے ایک لمبے سفر پے روانہ ہوئے ،اور مصر میں پہنچ کر الحاکم کی دارالعلم سے وابستہ رہے، اور موید فی الدین الشیرازی کے شاگردی میں کئی سال بیٹھے رہے۔مصر سے واپسی اور لک بھگ 1060 میں اپ کو بلخ چھوڑنا پڑا ،کیونکہ ان کی جان خطرے میں پڑ گئی تھی۔یہاں سے اپ یمگان کے پہاڈوں میں جلاوطن ہوئے۔اور یمگان سے ہی اپ نے ایک وسع دعوت کی کام کی نگرانی کرنے لگے۔اپ کی کوشیشوں سے ان جگہوں میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت ممکن ہو سکی ۔اس سے قبل یہاں زرتشت مذہب رائج تھا۔بدھ مت مذہب چھٹی صدی میں گلگت بلتستان میں خوب پھیلا تھا۔دیامر اور گلگت میں بدھ مت مذہب کے بڑے بڑے مراکز تھے۔داریل اور تنگیر میں حالیہ دنوں میں بدھ مت کے ایک یونیورسٹی کے اثار ملے ہیں۔اس یونیورسٹی سے حصول تعلیم کے بعد مرد و زن دور دراز کے علاقوں کا سفر کرتے تھے، اور اپنے عقیدے کا پراچھار کرتے تھے۔بدھ مت کے عروج کے زمانے میں دیامر علم و حکمت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ چلاس کے گرد و نواح میں پہاڈوں پر نقش و نگاری کی گئی ہے۔اور اپنے عقیدے سے مطلق اشکال پھتروں پر بنائے گئے ہیں۔اسی طرح تھول نگر میں چھٹی صدی عسوی کا بنایا گیا ایک اسٹوپا اج بھی موجود ہے ۔بدھ مت مذہب یاسن اور غذر میں نہیں پھیل سکا۔وہ وجوہات و محرکات معلوم نہیں ہو سکے کہ یہ مذہب ان علاقوں تک کیوں نہیں پہنچ سکا ۔ہنزل سے اگے بدھ مت سے وابستہ ایسے کوئی آثار ابھی تک دریافت نہیں ہوسکے ۔یاسن میں زیادہ عرصے تک زرتشت مذہب رائج رہا۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان علاقوں میں بسنے والے قبائل میں اگ سے وابستہ عقیدت موجود ہے۔مثال کے طور پر جب گھر میں اتش کدہ میں پانی گر جائے تو احترام کے طور پر اگ کی طواف لی جاتی ہے۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ راگ پر پاؤں رکھنے سے ٹانگیں ٹوٹ جائیں گی۔اسی طرح جب دلہن کو شادی کے بعد رخصت کی جاتی ہے تو اخری بار اس کو اتش کدہ کے گرد کھمایا جاتا ہے۔ان سب عملی کاموں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یاسن میں زرتشت مذہب بہت عرصے تک رائج رہا ہے۔

برنداس تھوئی اور سلگان کے سنگم پر واقع ہے۔اسی مقام پے مرکزی روڈ سے متصل بڑے پتھروں کو گول دائرے میں نصب کئے گئے ہیں ۔یہ پتھر سائز میں کافی بڑے ہیں ۔ان پتھروں کے حوالے سے مقامی لوگوں سے روایت ہے کہ، برانداس میں زمانہ قدیم سے ایک دیو ہوا کرتا تھا ،جو ہر آنے جانے والے مسافروں کو غائب کرتا تھا۔اگر دو مسافر ایک ساتھ سفر کر رہے ہوتے تھے تو ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اٹھا لیتا تھا۔اور یہ روایت بھی موجود ہے کہ ایک بزرگ پیر کا گزر یہاں سے ہوا۔جب پیر اس مقام پر پہنچا جہاں سے لوگ غائب ہوتے تھے ،پیر بحفاظت اس جگہے سے گزر گیا۔اس وقت کے بعد جن اس بزرگ کے حکم کے تابع ہو گیا۔

مقامی لوگوں کو یہ قوی یقین ہے کہ ان پتھروں کو اسی دیو نے یہاں پر نصب کیا ہے۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ،ان پتھروں کا حقیقی تعلق مذہب زرتشت سے ہے،یہ ایک آتش کدہ ہوتا تھا۔ غالب امکان ہے کہ مختلف مذہبی تہواروں کے دوران اس آتش کدہ میں بڑا سا الاو جلایا جاتا تھا، اور اس کے گرد گھوم کر طواف کیاجاتا تھا۔

ایسے پتھروں کے آثار  امولست میں بھی ہیں۔اصل میں دیومالائی کہانیاں فرضی ہوتی ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔بس ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ان پتھروں کا تعلق مذہب زرتشت سے ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button