گلگت سے کیلاش تک
تحریر: امیرجان حقانیؔ
گلگت سے کیلاش تک کے سفر میں تقریباً پانچ روز صرف ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ملک بھر میں کافی اسفار کرنے کا موقع عنایت کیا ہے۔ہر سفر کا لطف اورکیفیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ایک عظیم سفر کی چاہت ہمہ وقت رہتی ہے وہ ہے دیار حبیب ﷺ کا سفر ہے۔وہ کیا حسین منظر ہوگا جب یہ فقیر تلبیہ پڑھتے ہوئے بیت اللہ کی طرف پابہ رکاب ہوگا۔فقیرانہ بھیس بدل کر جب شہنشاہ عالمین کی دربار میں حاضری ہوگی۔ وہ شہنشاہ جس کے سامنے محمود و ایاز، محتاج و غنی، عربی و عجمی غرض ہر ایک برابر ہوگا۔مگر عظمت صرف اصحاب تقویٰ کو حاصل ہوگی۔ان مبارک لمحات میں دل کی دنیا آباد ہوگی۔اب تک جتنے بھی اسفار ہوئے ان میں سب سے خوشگوار سفر ’’گلگت سے کیلاش‘‘ تک کا سفر ہے۔اس سفر میں بے حد لطف و سرور اٹھایا، ہر محفل سہانی تھی، اس سفر جیسا لطف پہلے کبھی نہیں پایا۔مگر سچی بات یہ ہے کہ اس سفر کی سب سے اہم بات قاضی نثاراحمد اور مولانا حق نواز (اسکردو والے) کی معیت تھی۔یارانِ محفل میں ان کی خوش گپبیاں، ذوق و آگہی،بلند قہقہے، اور لطیفوں سے احباب محظوظ ہوتے اور ان کاجملے چست کرنے اورپھبتیاں کَسنے سے بزمِ یاراں میں خوشگوار لہروں کا ارتعاش ایک کیف آگیں نغمہ پیدا کرتا۔سفری رخصتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکایات گوئی اورآپ بیتیوں سے تو ماحول مسحورکن بن جاتا۔یہ تو جلوت کی بات تھی مگر ان کی خلوت بھی رشک آفریں تھی۔تلاوت کلام اللہ، راتوں کا جاگنا، اذکار و وظائف ،پند و نصائح اور سفری معمولات پر پابندی سے عمل کرنا میرے جیسوں کے لیے خوشگوار حیرت سے کم نہیں تھا۔
جمعرات اکیس اگست کو ایک بڑا سفری کارواں جامعہ نصرۃ الاسلام سے پھنڈر گلاغمولی کی طرف روانہ ہوا۔تین دن پہلے مجھے مطلع کیا گیا تھا مگر میں اپنی پروفیشنل مصروفیت کی وجہ سے بروقت نہیں پہنچ سکا جس کی وجہ سے روانگی میں تاخیر ہوئی۔تمام احباب کی شکایت کو خوش دلی سے سہہ لیا۔ اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں تھا، کیونکہ جہاں سے قافلے نے روانہ ہونا تھا وہی میری جائے سکونت تھی۔ باقی احباب تو ادھر اُدھر سے جمع ہوئے تھے۔ پولیس موبائل کی معیت میں دو گاڑیوں میں۱۷ رکنی قافلہ نام خدا لے کر خرامے خرامے روانہ ہوا۔ شیکوٹ کے قریب پہنچ کر ایک گاڑی نے جواب دے دیا جبکہ قاضی صاحب کی گاڑی سیدھا شیکوٹ مسجد کے د روازے پر رکی۔ جامعہ نصرۃ الاسلام کے زیر انتظام یہ مسجد بہت جلد مکمل ہوئی۔اس علاقے کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد ہے۔ قاضی صاحب کی گاڑی میں مولانا حق نواز، بھائی عمر احسن(کراچی) اور ناچیز تھے۔ جب ہمیں دوسری گاڑی کی خرابی کی اطلاع ہوئی تو قاضی صاحب نے دوسری گاڑی کے ساتھی مولانا منیر، مولانا نظیم،محمد نواز(جنرل سیکرٹری تنظیم اہل سنت والجماعت گلگت بلتستان وکوہستان) اور دیگر ساتھیوں کو لانے کے لیے روانہ کردیا اور خود حق نواز صاحب کو مسجد کی تعمیراتی کام دکھانے لگے اور فورا وضو کرکے دو رکعت صلاۃ المسجد پڑھنے لگے۔مجبورا ہمیں بھی ان کی اتباع کرنا پڑا۔
ضلع غذر کے مختلف مناظر دیکھتے ہوئے ہم گوپس پہنچے جہاں مولانا حفیظ اللہ کی دادی کی تعزیت پرجانا تھا۔ سیدھا ان کے گھر گئے۔قاضی نثاراحمد نے حاضرین مجلس سے تعزیت کی ، فاتحہ پڑھا، مختصر گفتگو کی اور دوپہر کا کھانا کھا کر قافلہ آگے روانہ ہوا۔گوپس سے نکلتے ہوئے اچانک ایک مشورہ ہونے لگا کہ پھنڈر سے سیدھا چترال پہنچا جائے۔ قاضی نثاراحمد نے کہا کہ ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے اور چترال جانا کوئی اتنا لازمی بھی تو نہیں۔ تاہم مولانا حق نواز صاحب بول پڑے کہ حضرت، چترال جانے کے کئی فوائد ہیں، مثلا ہم گرم چشمہ دیکھیں گے، کیلاشیوں کی تہذیب و تمدن سے آگاہی حاصل کرلیں گئے اور سب سے اہم جو بات ہے وہ چترال کے علماء کرام اور اہل علم کے ساتھ کچھ مخصوص نشستیں کریں گے اور ان کے مسائل سمجھیں گئے اور اپنے مسائل سے انہیں آگاہ کریں گے۔ ہمارے کراچی کے مہمان جناب عمر احسن نے بھی اپنے مخصوص انداز میں چتر ال جانے کی حمایت کی اور وہاں احبابِ سفر کو کچھ سہولیات دینے کی آفر بھی کی۔ میں بھی کیسے خاموش رہ سکتا تھا، جانے کے لیے اصرار کیا، وہاں کے خوبصورت علاقوں کے گن گائے، تب قاضی نثار احمد نے کہا کہ ضرور جائیں گے ، اس سفر کے امیر مولانا حق نواز ہونگے جبکہ چیف گیسٹ عمر احسن۔ اب جو ترتیب اور حکم آپ دونوں کا ہوگا وہی کرلیا جائے گا۔ مولانا حق نواز کہنے لگے کہ بے شک سفر کا امیر مجھ بوڑھے کو بناؤ مگر حکم آپ ہی کا چلے گا کیونکہ ہم پورے گلگت بلتستان والے آپ کو اپنا امیر بنا چکے ہیں۔میں بظاہر باتیں سن رہا تھا مگر دل و دماغ کی ا سکرین پر گرم چشمہ ، شاہی مسجد چترال اور کافرستان کے مناظر دوڑ رہے تھے۔بے تابی کھائے جارہی تھی ۔اس گفتگو کے دوران گاڑ ی ضلع غذر کی مشہور جھیل ’’ خلتی جھیل ‘‘ پہنچ گئی۔ قاضی صاحب نے فیصلہ صادر کیا کہ یہاں رک کر جھیل کا نظارہ کریں گے، ایک کڑک قسم کی چائے پی کر نماز عصر ادا کی جائے گی اور اپنے بقیہ ساتھیوں کا انتظار کریں گئے جو ابھی گاہکوچ پہنچ گئے ہیں۔ ہم نے صاد کیا اور یوں خلتی جھیل ویو ہوٹل میں اتر گئے۔ کڑک چائے کا آرڈر دے کر ہم سب جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔
ضلع غذر میں کئی جھیلیں ہیں۔ان میں جو مشہور جھیلیں (Lakes)ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ پھنڈر جھیل[Phander Lake]، قرمبر جھیل [Qurumber Lake]، شندور جھیل [Shandur Lake] ، خلتر جھیل [Khaltar Lake] ، گاموجھیل [Gamoo Lake]، تلی مسک جھیل[Tili Musk Lake]، خابرجھیلیں[[ Khabar Lakes]اور خلتی جھیل [Khalti Lake]ہیں۔ اور میرے خیال میں سب سے لمبی اور شفاف جھیل خلتی جھیل ہے جس کے کنارے ہم کھڑے ہیں۔خلتی جھیل میں ٹروٹ مچھلیاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔جھیل کے شفاف پانی سے مولانا حق نواز اور قاضی نثار احمدنے وضوء کیا۔ ہم نے بھی وضو کیااور جھیل کنارے پکچرز بنوائی اور نماز عصر پڑھنے چل دیے۔جس جگہ پر بیٹھ کر ہم چائے پی رہے تھے وہاں سے خلتی جھیل کا منظر بہت ہی پیارا لگ رہا تھا۔جھیل کے ایک کنارے مرغابی بھی اڑتے دیکھا۔قاضی صاحب کے حکم پر غذر پولیس کے جوانوں کو بھی خصوصی چائے دی گئی۔گفتگو کا دور چلا تو چل ہی پڑا۔جھیل کی تزئین و آرائش پر احباب نے اپنے خیالات شیئر کیے اور حکومتی نااہلی پر کف افسوس ملا۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ خلتی جھیل قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی ہے یعنی عطاء آبادجھیل کی طرح۔ دوپہاڑیوں کے درمیان تنگ سی جگہ پر دریاے پھنڈر کا گزر ہورہا تھا، ایک پہاڑی سے ایک بڑا حصہ(تودہ) دریا میں گر گیا اور پانی کا راستہ روک لیا تب پانی رک کر جھیل کی شکل اختیار کر گیا اور خلتی گاؤں کا اکثر حصہ ڈوب گیا۔ اب بھی پل کے اس پار کچھ آبادی ہے۔یوں یہ جھیل خلتی جھیل کے نام سے معروف ہے۔
ضلع غذر میں کئی زبانیں بولی جاتیں ہیں لیکن جو زبانیں سب سے زیادہ اور اکثر علاقوں میں بولی جاتی ہیں ان میں شینا، کھوار، وخی اور بروشسکی قابل ذکر ہیں۔کئی دریا بہتے ہیں لیکن سب سے بڑا دریا، دریائے گوپس ہے جس کے کنارے ہمارا سفر جاری ہے۔بہت ہی شفاف دریا بہتا ہے۔گوپس سے پھنڈر تک درمیان میں کئی گاؤں ہیں جن میں شمرن، چھچھی،ہایم اور بھتریت معروف ہیں۔بتھریت نالہ کافی لمبا ہے اور اکثریت گجر برادری کی ہے۔سادات بھی کافی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔شام کی دھندلکیوں میں دائیں بائیں کے مناظر بڑے جاذب النظر لگ رہے تھے۔متصلِ روڈ مکئی کے بڑے بڑے کھیت کھڑے کھڑے ہمیں دعوت سخن دے رہے تھے اور ہم خیالات کی وادیوں میں دنیا و مافیہاسے بے خبر ’’لطف یکتائی‘‘ میں غرق تھے۔
جب ہم چھچھی پہنچے تو قافلے کے استقبال میں عوام الناس کا ایک ہجوم کھڑا تھا۔جو موٹر سائیکلز اور گاڑیاں لے کر اپنے معزز مہمانوں کے استقبال کے لیے نمازظہر سے اب تک یہی کھڑے انتظار کررہے تھے۔ ہمارے پچھلے ساتھے بھی ہم سے آکر ملے تھے۔قاضی نثاراحمد نیچے اترے اور فرداً فرداً استقبال کرنے والوں سے معانقہ کیا اور ہم یہ مناظر دیکھ کر مبہوت ہوئے اور رشک بھی آیا اور اپنی حالت زار پر ترس بھی آیا ۔ کیونکہ ہمیں کوئی گھاس ڈالنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا، بمشکل چند جاننے والوں نے ہمارا دل رکھنے کے لیے ہنس ہنس کر سلام کیا۔ قاضی نثار احمد نے پولیس موبائل کے انسپکٹر کو بلایا اور ان سے کہا کہ آپ نے بہت خدمت کی، رات آپ کو آگے تک جانے اور وہاں رہنے میں دشواری ہوگی لہذا آپ یہاں سے واپس جاسکتے ہیں ۔ ہماری طرف سے آپ کو مکمل اجازت ہے۔ پولیس کے جوانوں کے چہرے کھل گئے اور وہ ہنس کرکہنے لگے بہت شکریہ، اگر آپ اجازت نہ دیتے تو واپسی تک تو آپ کے ساتھ ہی ہماری ڈیوٹی تھی مگر آپ نے ہمارا کام آسان کردیا۔یوں وہ خوشی خوشی ہم سے رخصت ہوئے۔(جاری)