6ستمبر، ہمارے تعارف کا دن
تحریر محمد جاوید حیات
’’میرے جوانو!سنو!ہم ناشتہ لاہور میں کریں گے‘‘یہ اس بزدل اور ناعاقبت اندیش جنرل کے الفاظ تھے جو شیروں کے کچھاراور لومڑی کے بل میں فرق نہ کرسکا تھا۔اس کو زندہ اور حی القیوم پروردگار اور بے جان بت کی قوتوں میں فرق کرنا نہ آتا تھا۔اس کو اس بازو کا اندزہ نہیں تھا۔جو خنجر بھی اٹھا سکتے ہیں اورتلوار بھی۔۔۔۔جس نے اس سر کی قسم نہیں کھائی تھی جوجھکنے کے لئے نہیں ہوتے۔جس نے کھبی اس زندگی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جو اس عارضی دنیا کے بعد آتی ہے۔جس نے یہ خیال نہ کیا تھا کہ ان جوانوں کو کھبی تنخواہ ،عہدہ، سلوٹ اور سٹار کی فکر نہیں ہوتی۔وہ بندوق کا لبلبہ دباتے ہی رہتے ہیں۔اس نے کبھی سوچا نہ تھا کہ مومن کی قوت کی آزمائش کی پہچان آزمائش ہی میں ہوتی ہے۔اس کو کسی نے پڑھایا نہ تھا کہ گولی چلانا ہی کافی نہیں ہوتا گولی کے پیچھے جو حوصلہ اور جذبہ ہوتا ہے وہ اس کو نصیب نہیں۔۔۔۔اِدھر سے آواز گونجتی ہے۔۔۔۔
میرے عزیز ہم وطنو! بزدل دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کردی ہے۔۔۔۔جنگ شروع ہوچکی ہے۔۔۔ہمارے شیر دشمن کے حملے روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔۔۔دشمن کو اندازہ نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارہ ہے۔۔۔اُٹھو !لڑو!گلی کوچوں ،دریاؤں میں ،فضاؤں میں،پہاصڑوں میں،صحراؤں میں اور دشمن کو سبق سیکھاؤ۔۔۔۔اللہ اکبر کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو۔قوم جاگی۔۔۔بچے بوڑھے جاگے۔۔۔مرد خواتین جاگ اُٹھیں۔لاہور کی خواتین چاقو چھری لے کے باہر نکلیں۔نوجوان،بہنیں اپنے بھائیوں کی مرہم پٹی کے لئے محاذوں کی طرف دوڑیں تھیں۔حضرت عائشہؓ کی روح تڑپی تھی۔میدان احد کا منظر تھا۔کہنے والے کہتے ہیں محمد مصطفےؐ امام کعبہ کو خواب میں نظر آئے تھے۔فرمارہے تھے ہم جہاد کے لئے پاکستان جارہے ہیں۔دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سفید پوش دشمن پر بم گرارہے تھے اللہ اکبر کے نعرے گونج رہے تھے۔۔۔۔یہ6ستمبر 1965کی رات تھی چھ ستمبر کا سورج طلوع ہوا تو اس نے آگ اور خون اور جنون کا تماشا دیکھا۔۔۔جنت سجائی جارہی تھی۔ارض وطن ماں کی صورت شہدا کو اغوش میں لے رہی تھی۔ان کی وردیاں ،،ان کے سٹارز،ان کے چمکتے جوتے ان کی ٹوپیاں خاک الود ہو رہی تھیں۔اس دن کے لئے زندہ تھے یہ اپنا فرض سنبھارہے تھے۔ارض وطن ان کو شاباشی دے رہی تھی۔شاہین فضاؤں میں اُڑان بھررہے تھے۔عقاب سمندروں میں قلابازیاں کھارہے تھے شیر صحراؤں اور پہاڑوں میں دوڑ رہے تھے۔قوم پیچھے کھڑی تھی۔پنجاب کے چودھری اپنی چادریں سنبھال چکے تھے۔بلوچستان اورKPKکے سخت جان اپنی بندوق کندھوں پہ اٹھائے تھے۔سب اس مٹی کی قسم کھارہے تھے۔۔۔۔کوئی تمہارا ایک انچ بھی ہم سے نہیں چھین سکتا۔۔۔
دنیا نے مسلمانوں کی ایسی غیرت کم کم دیکھی تھی۔دشمن کو اندازہ ہوگیاتھاکہ اس نے آگ کو چھوا تھا۔ان کی روح تک جل گئی تھی۔لاہور والے ارام سے اپنے گھروں میں ناشتہ کررہے تھے۔آگ کے شعلے ان کے گھروں سے اب بہت دور تھے۔قوموں کی تاریخ میں غیرت کے لمحے کم کم آتے ہیں۔اور جب آتے ہیں تو صدیوں کی زندگی پہ بھاری ہوتے ہیں۔ستمبر1965کے وہ 17قیمتی دن ہماری قوم کی عمر ہیں۔یہ وقت ،یہ لمحے،ہماری پہچان ہے۔ہمارا تعارف ہے،ہمارے اس امتحان کا دورانیہ ہیں جسمیں ہم پاس ہوئے تھے۔آج وہ مبارک روحیں جو اس مٹی کی حفاظت کے کام آئیں تھیں ،مسرور ہوئی ہونگی۔ہم سے تقاضہ کررہی ہونگی کہ ہم وہ غیرت کا سبق دہراتے رہے ،دنیا کو بتاتے رہیں کہ ہم وہیں ہیں۔لاہور ہمارا ہے،پاکستان کا انچ انچ ہمارا ہے۔اس پر صرف ہمارا حق ہے،ہم وہ آنکھیں پھوڑ دینگے جس اس کی طرف میلی ہوکے اُٹھیں۔ہم وہ عزائم خاک میں ملادینگے جو اس کے خلاف ہوں۔ہم وہ بازو توڑ دینگے جو اس کی طر ف اُٹھیں۔ہم زندہ ہیں۔زند رہنا چاہتے ہیں اور انشاء اللہ زندہ رہینگے۔