ایک اورچراغ گل ہوا
جی کرتاہے کہ گھڑی باغ گلگت میں دھرنے کا بندوبست کر کے سٹیج کے سامنے جو منہ میں آئے گلگت کی انتظامیہ اور یہاں کے حکمرانوں کو جلی کٹی سنادوں۔
ایک تو مجھے وزیر اعلیٰ اور وزیر کا لفظ لکھتے ہوئے بڑی کوفت ہوتی ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے وجوہات بہت ساری ہیں اس کا تذکرہ پھر کبھی ۔اس وقت تو جلی کٹی کے ساتھ ساتھ ان کی شان میں صلوات کا گو لہ بھی داغ دینے کو دل کرتا ہے جیسے عمران خان اور قادری اسلام آباد ڈی چوک میں بیٹھ کر انجام دے رہے ہیں ۔
آخر ایسی کونسی بات ہوئی ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے ۔اس کا جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ میرا جمہوری حق ہے ۔فرائض ادا کریں یا نہ کریں جمہوری حق ضرور حاصل کرنا ہے چاہئے وہ گالیوں سے الزمات سے یا کسی کی جان لیکر حاصل ہو ۔۔۔میر ے دل میں یہ خیال اس لئے جاگا ہے کہ یہ حکمران جنہوں نے امن او ر سکیورٹی کے نام سے جتنے فنڈ پانی کی طرح بہا دئے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن اس کے مقابلے میں امن آشتی اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کہیں نظر نہیں آتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس امن کے دورانیہ میں ایک وقفہ ضرور ہوتا ہے ۔کیا میں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے ایسا کر سکتا ہوں؟ اس کا جواب نفی میں ہے.۔
میرے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ ایک مہذ ب شہری کے ناطے ایسی حرکت نہ مجھے زیب دیتی ہے اور نہ ہی میری تربیت اس نہج پر ہوئی ہے کہ میں ایسی راہ کا انتخاب کروں ۔اور اس وقت خلیفہ چہارم حضرت علی کا یہ قول بھی ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ بد زبانی آدمی کی رونق و عزت اور مروت کو کھو دیتی ہے اور بھائی بندی میں بگاڑ پیدا کرتی ہے ،میں کیسے کسی غیر اخلاقی فعل کا مرتکب ہو سکتا ہوں۔لیکن اتنا تو مجھے حق ہے کہ میں حق کو حق اور باطل کو باطل کہہ سکوں ۔۔اس ہفتے گلگت میں ایک اندوہناک و اقعہ پیش آیا ۔نامعلوم افراد نے گجر برادری کے ایک فرد کو دنیور میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور اسے موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد موقعے سے فرار ہوئے۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ پولیس جلد ہی مجرموں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور ایس پی علی ضیاء نے ایک پریس کانفرنس میں جن تفصیلات کا ذکر کیا ہے اس میں چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ اس کے پیچھے بہت بڑی سازش اور اس سفاکانہ قتل کو فرقہ ورانہ بنیاد کی کڑی قرار دیا گیا ہے ۔ یہ انکشاف ہر امن پسند شہری کے لئے لحمہ فکریہ ہے۔تھوڑی دیر کے لئے سوچیں اگر وقت پر ان مجروموں کی نشاندہی نہ ہوتی تو حالات کس نہج پر جاتے ۔۔
میں گجر داس اورسلطان آبادکے چکر میں پڑے بغیر اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس واقعہ کے بعد وہ علاقے جہاں کوئی فرقہ اقلیت میں ہے وہ اپنے آپ کو بڑے غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ گلگت میں کشیدگی کے باعث پہلے ہی کئی علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔جو بڑی تشویش کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری بے حسی اور سرد مہری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ مستقبل کے لئے کوئی اچھی علامت اور نیک شگون تصور نہیں کی جاسکتی۔۔گلگت کی سیاسی تاریخ تو چند عشروں کی ہے لیکن اس کی مذہبی تاریخ صدیوں پر محیط ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کی سیاست پر مذہب کا چھاپ کچھ زیادہ ہے ۔اور یہاں کے پڑھے لکھے لوگ بھی اس خول سے اپنے آپ کو اب تک الگ کرنے میں اس حد تک کامیاب نہیں جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ۔اس کا اندازہ اور مشاہدہ گلگت بلتستان کے انتخابات کے دوران بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ہم سب امن کے متلاشی ہیں لیکن جب اس امن کی راہ میں منافقت کا عنصر ابھرنے لگے تو ساری کہ ساری کوششیں دھری کہ دھری رہ جاتی ہیں
۔سوال یہ ہے کہ گلگت میں یہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ کیوں؟ اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس بارے یہاں کے باسی چاہئے ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو وہ اس کو انجنسیوں کی کارستانی قرار دیتے ہیں یا وہ اسے بین الا اقوامی حالات سے جوڑ دیتے ہیں ۔ان باتو ں اور مفروضوں کو یکسر مسترد کرنا بھی مشکل ہے ۔لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان حقائق کو جاننے کے بعد بھی جانے اور انجانے میں دوسروں کے آلہ کار بننے کی روش سمجھ سے بالا تر ہے ۔۔مجھے یہ کہتے ہوئے بڑی کوفت اور دکھ کا سامنا ہوتا ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارتے ہوئے ہم کیوں نہیں چونکتے اور کیوں منافقت کے لبادے میں رہنا ہی پسند کرتے ہیں؟ ۔ اور آخر یہ منافقت اور دوغلا پن کب تک؟ ہم کیوں اب تک غلط فہمیوں کے شکار ہیں کیوں ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سر گرداں ہیں ؟کیا ان چیزوں کے پیچھے پڑ کر ہم اپنی نئی نسل کے لئے اس خطے کو جنت بنا رہے ہیں یا جہنم کا ایک گڑھا ۔ہم سب کو اپنے گریبانوں میں جھاکنا ہوگا سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لئے منافقت کے خو ل سے باہر آکر سچے دل سے ان محرکات کی نشاندہی کرنی ہوگی جن کی وجہ سے خطے کے حالات خراب ہوتے ہیں اور ان شر پسندوں کو قانون کے نرغے میں لانا ہوگا جو سادھو کے بھیس میں شیطان کا کردار اداکررہے ہیں نہیں توگجر حیات خان کی طرح انسانی چراغ گل ہوتے رہئنگے اور خطے میں امن ایک خواب بن کے رہ جائیگا ۔ گلگت کی فرقہ ورانہ قتا ل کی تاریخ کے آج تک کے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو معلو م یہی ہوتا ہے کہ ان قتال میں بہت سارے پردیسی اور عام بے گناہ افراد کے ساتھ جو مقامی لوگ نشانہ بنے ہیں چاہئے ان کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو ان کا قصور بس صرف اتنا لگتا ہے کہ وہ سرکار کے اعلیٰ عہدوں میں تھے یا وہ معاشرے کے فعال رکن تھے۔دنیور میں بر بریت کا نشانہ بننے والے واقعہ کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں بھی یہی عنصر نمایاں لگتا ہے ۔ اپنے کالم کا اختتام بھی شیر خدا اور فاتح خیبر کے اس قول سے جو ہماری رہنمائی کا باعث ہے کرنا چاہونگا ۔۔بھائی کی لغزش اور غلطی کو در گزرکرنا سب سے اچھا اور احسن فعل ہے ۔ غور کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے ہمیں ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو معاف کرنے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے کے اسلاف کے بارے میں نیک گمان رکھنا ہی ہمارے اتحاد کے لئے بہتر ہے ۔ہمیں امن سے رہنا ہوگا اپنے لئے نہیں بلکہ اس خطے کے عوام کے لئے اپنی آنے والی نسل کے لئے اوریہ بات بھی گرہ میں باندھ لینی ہوگی کہ ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے والی روش اور رحجان معاشرے میں امن کے پھول نہیں شر کے کانٹے بکھیر دیتا ہے ۔