سفرنامہ – شاہی مسجد، چترال
تحریر: امیرجان حقانیؔ
شندور سے مسلسل سات گھنٹے سفر کرکے رات بارہ بجے چترال شہر پہنچے اور یہاں عالمگیر ہوٹل میں رات گزاری۔ صبح ناشتے کے بعد سب سے پہلے شاہی مسجد جانے کا طے ہوا۔ قاضی نثاراحمد نے کہا کہ’’ بمبوریت(کیلاش) اور گرم چشمے کی سیر سے پہلے یہاں کی تاریخی شاہی مسجد دیکھیں گے ۔ دو رکعت پڑھ کر وہاں موجود علماء سے ملاقات کرکے آگے نکلیں گے‘‘ ۔ ہم نے حامی بھر لی اور اپنے لکھاری دوست ڈاکٹر پروفیسر عنایت اللہ فیضی کو کال ملایا اور انہیں بتایا کہ ہم علماء کا ایک وفد قاضی صاحب کی معیت میں چترال آئے ہیں ۔ ابھی ہم شاہی مسجد کا قصد کرچکے ہیں اگر آپ کے پاس فرصت ہے تو وہاں تشریف لائیں۔یقین کریں کہ انہوں نے انتہائی مسرت سے چترال ویلکم کہا اور فورا کہا کہ میں شاہی مسجد کے خطیب اور دارلعلوم شاہی مسجد چترال کے علماء کو اطلاع کرتاہوں کہ وہ بھی جمع ہوجائے اور شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان کا فون نمبر بھی سینڈ کیا اور ان کو ہمارے آنے کی اطلاع بھی کردی۔ مولانا خلیق الزمان صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں پہنچ جاؤنگا، آ پ وہاں تشریف لے چلیں۔یوں ہم شاہی مسجد چترال پہنچ گئے۔
میرے سامنے قدیم طرز کی ایک خوبصورت مسجد اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ موجود تھی۔ یہ چترال کی مشہور’’ شاہی مسجدچترال‘‘ تھی۔وسعت، مضبوطی،گل کاری اور نقاشی سے مزین یہ مسجد1919ء کو شروع ہوکر1925کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔اس کی تعمیرمہتر چترال جناب سر شجاع الملک مرحوم نے کروائی ہے۔ مسجد کا رقبہ چھ کنال دو مرلہ ہے ۔پکی اینٹوں اور سنگ مرمر سے بنائی گئی اس مسجد میں تین ہزار سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔اس مسجد کے مینارے دور سے نظر آتے ہیں اور بہت ہی خوبصورت ہیں۔ہم گاڑیوں سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے ، تحیۃ المسجد پڑھا، قاضی صاحب اور مولانا حق نواز مسجد کو دیکھنے میں مصروف ہوئے۔ ہمارے دوسرے ساتھی بھی پہنچ چکے تھے۔ مسجد میں حفظ اور درس نظامی کی کلاسیں لگی ہوئی تھیں۔مولانا محمد صاحب الزمان صاحب نوراللہ مرقدہ،(فاضل دارالعلوم دیوبند) اس مسجد کے خطیب تھے اور اب ان کے صاحبزادے مولانا خلیق الزمان صاحب خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔بہت ہی خوبصورت مسجد ہے۔ یہ مسجد سرکار کے زیر انتظام ہے۔ مسجد کے متصل گورنمنٹ دارالعلوم چترال ہے اور ساتھ شاہی قلعہ چترال بھی ہے جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ مسجدکے ایک طرف بڑے بڑے درخت ہے اور ان درختوں کے اوٹ میں دریائے چترال اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ اور خوشگوار ہوائیں چل رہی تھی۔درختوں پر بیٹھے پرندے دریائے چترال کی سروں پر رقص کررہے تھے اور محبت کے گیت گارہے تھے۔ان پرندوں کو قطعا اس کی خبر نہیں تھی کہ دریائے چترال کی منزل کیا ہے ۔وہ تو اپنی ذات میں محبت کے تلاش مسلسل میں مگن تھے۔ اس دریا سے صرف چترال کے پہاڑوں کی نہیں گلگت کی دوشیزاؤں اور افغانستان کی نازنینوں کی بھی مہک آرہی تھی۔
ہمارے احباب گورنمنٹ دارالعلوم چترال کی آفس پہنچ گئے جہاں دارالعلوم کے صدرمدرس مولانا حفیظ الرحمان نے’’ اھلا و سہلا ‘‘کہا، یوں علماء کے ساتھ مجلس شروع ہوگئی ہے۔ مولانا حفیظ الرحمان نے گورنمنٹ دارالعلوم چترال کی ہسٹری بتلانا شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ’’یہ دارلعلوم 1952ء میں قائم ہوا ہے۔اس کے صدرالمدرسین اور مدرسین کے لیے شرط یہ ہے کہ فاضل دارالعلوم دیوبند ہوں یا مکتبہ دیوبند کے وفاقی بورڈ وفاق المدارس کے ملحقہ مدارس کا تربیت یافتہ ہوں ۔اساتذہ کی تقرری حکومت کی جانب سے عمل میں لائی جاتی ہے اورتنخواہیں بھی حکومت دیتی ہے۔ صدرالمدرسین سینارٹی کے طور پر چُنا جاتا ہے۔گورنمنٹ دارالعلوم کے تمام اساتذہ سرکاری ملازم ہیں۔یہ دارالعلوم وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ منسلک نہیں ہے تاہم وفاق کا سلیبس یعنی درس نظامی ہی پڑھایا جاتا ہے۔روز اول سے آج تک دورہ حدیث تک پڑھایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے حکومت نے اس کی سند کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے‘‘۔گورنمنٹ دارالعلوم چترال کی طرح پاکستان میں تین مدارس اور بھی ہیں جن کا انتظام سرکار ی ہے۔ دو مدارس سوات میں اور تیسرا بھی چترال ہی میں ہے۔ اس دارلعلوم کے صدرالمدرسین بہت بڑی علمی شخصیات رہی ہیں جن میں مولانااجلال الدین صدرالمدرسین اول، مولانا یوسف صاحب صدرالمدرسین دوم رحمہم اللہ تھے جو دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے فضلاء تھے۔جس فرشی نشست پر ہم بیٹھے تھے وہاں چترال کے جید علماء کی ایک بڑی تعدادگلگت سے قاضی صاحب اور دیگر علماء کرام کی آمد کا سن کر ہنگامی بنیادوں پر جمع ہوئے تھے۔ان کا یہ انداز دلبرانہ بہت ہی اچھا معلوم ہوا۔برادرم نورمحمدتو علماء کی خدمت کے لیے وقف ہیں خصوصی تشریف لائے تھے۔ جن علماء نے خصوصی طور پر اس نشست میں حصہ لیا ان کے نام یہ ہیں مولانا ثناء اللہ ، مولانا عبدالاعلی، مفتی شریف اللہ، مولانا محمدرفیق،مولانا شبیراحمد نقشبندی، مولانا فضل حق، مولانا عبدالقیوم حقانی وغیرہ شامل تھے۔یہ تمام علماء چترال کے چیدہ علماء ہیں۔
گورنمنٹ دارالعلوم چترال کی صدرالمدرسین کی آفس میں ایک مختصر مگر بہت ہی پر اثر نشست ہوئی ۔ اس نشست کا تذکرہ چترال کے معروف لکھاری پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ نے اپنے ایک کالم میں ان الفاظ میں کی ہے۔’’مرکزی جامع مسجد گلگت کے خطیب قاضی نثار احمد صاحب گذشتہ دنوں چترال تشریف لائے ۔ براور گرامی امیر جان حقانی صاحب کے توسط سے قاضی صاحب کی مجلس میں چند لمحے بیٹھنے کا موقع ملا ۔ شاہی مسجد چترال سے ملحق مدرسہ جامعہ اسلامیہ چترال کے دار اہتمام میں فرشی نشست تھی ۔ مولانا حفیظ الرحمن نے قاضی نثار احمد صاحب کا استقبال کیا ۔ مولانا غلام یوسف ، مولانا خلیق الزمان خطیب شاہی مسجد اور دیگر علماء موجود تھے۔ چونکہ یہ قاضی نثار احمد کا پہلا دورہ تھا ۔ مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ مقامات دیکھنا چاہتے تھے ۔ اس لئے زیادہ تر گفتگو پروگرام پر مرکوز رہی ۔ بحث کے بعد طے پایا کہ بمبوریت اور گرم چشمہ کا مختصر دورہ ہوگا ۔ علماء اور فضلا کے ساتھ انفرادی ملاقاتیں ہونگی ۔ اجتماعی پروگرام یا خطاب کا وقت نہیں ملے گا ۔ شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان کے والد گرامی مولانا صاحب الزمان مرحوم چترال کے پہلے صحافی اور چترال کے پہلے ہفتہ روزہ اخبار تریچمیر کے ایڈ یٹر تھے ۔ پدری پیشہ ہونے کے ناطے خطیب صاحب کی رگ صحافت پھڑک اُٹھی اور انہوں نے قاضی صاحب سے گلگت کی صورت حال خصوصاً فرقہ ورانہ کشیدگی کے بارے میں سوال پوچھا ۔ سوال کے جواب میں قاضی نثار احمد صاحب نے کہا کہ اللہ کے فضل سے امن پرقرار ہے۔ سال سے زیادہ کا عرصہ گذرا کوئی بدامنی نہیں ہوئی ۔ اپنی گفتگومیں قاضی نثار احمد صاحب نے تین اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اہل سنت والجماعت کا مطالبہ یہ کہ گلگت اور بلتسان کو کشمیر کا وحدت قرار دیا جائے ۔ یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے وحدت کشمیر میں شامل ہے۔ اور اس کا مستقبل بھی کشمیر کے مستقبل سے جڑ ا ہوا ہے۔ کشمیر بھی پاکستان کا ناقابل تقسیم حصہ ہے گلگت بلتستان بھی پاکستان کا ناقابل تقسیم حصہ ہے۔ گلگت بلتستان کو الگ کرنے سے کشمیر پر ہمارا قومی موقف کمزور ہوجائے گا ۔ ہمارا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو اگر کشمیر کی وحدت کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے ۔ تو کوہستان ، بٹگرام اور چترال کے ملحقہ اضلاع کو گلگت بلتستان کے ساتھ ملاکر ملک کا پانچواں صوبہ قرار دیا جائے ۔سپریم کورٹ کا دائرہ کا ر گلگت بلتستان تک پڑھایا جائے ۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں گلگت بلتستان کو نمائیندگی دی جائے ۔ تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ کوہستان ، اور چترال میں سے کسی ایک ضلع کو گلگت بلتستان میں شامل کرکے الگ صوبہ بنایا جائے ۔ یہ اہل سنت اولجماعت کا اصولی موقف ہے ہم نے ہر فورم پر گلگت بلتستان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے اور موجودہ سیاسی اور آئینی ڈھانچے کی مخالفت کی ہے ۔ یہ ڈھانچہ عوامی احساسات اور جذبات کی عکاسی نہیں کرتا۔ اس ڈھانچے میں عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا اس ڈھانچے کی بنیاد بدنیتی پر رکھی گئی ہے۔ اور اس کا تعلق تاریخی حقائق یا عوامی جذبات واحساسات سے ہر گز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس سسٹم نے عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا ۔ چند لوگوں کو عہدے ملے ہیں ۔ چند گاڑیوں پر جھنڈے لگے نہیں ۔ جب وہ جھنڈے لہراتے ہوائے ، بازاروں سے گذرتے ہیں ۔تو لوگ ان کا مذاق اڑا تے ہوئے کہتے ہیں جھنڈا لہرانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ۔ میں تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکتا ۔ ‘‘۔
قارئین یقین جانیں: یہ فرشی نشست چترال اور گلگت بلتستان کے علماء میں اشتراک عمل اور مذہبی و سیاسی حرکیات کا پیش خیمہ بن گئی ۔ چترال کے علماء و خواص نے تین روز جس محبت و اکرام کا ثبوت دیا وہ تاریخ کا انمٹ حصہ ہے۔چترال کے علماء کی یہ چاہت بہت واضح تھی کہ آئندہ گلگت بلتستان اور چترال کے علماء میں قریبی تعلق ہو اور ایک دوسروں کے مسائل اور ضروریات سمجھنے کی کوشش کی جائے گی اور گلگت بلتستان کے حوالے سے آئینی و قانوی جدوجہد کو مشترک پلیٹ فارم سے آگے بڑھایا جائے۔چترال کے معزز علماء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس طرح کے دینی و سیاسی دورے وقتا فوقتا ہونے چاہیے،انہوں نے وفود کی شکل میں گلگت آنے کی خواہش ظاہر کی جس پر انہیں ویلکم کہا گیا ۔امید قوی ہے کہ مابین اشتراک عمل کا یہ تسلسل بہتر طریقے سے آگے بڑھے گا۔ (جاری)…..