کالمز

ماں ۔۔۔۔ عظیم ماں

محمد جاوید حیات

ماں جب دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتی ہے تو تاعرش برین کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔۔۔۔حضرت کائنات نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا۔۔۔موسیٰ ؑ اختیاط کر تیری ماں اب نہیں رہی،بچہ ماں کا لخت جگر ہے اس لئے ماں کی دنیا ہی بچے کے اردگرد گومتی ہے۔ماں عظیم ہے ماں کے کارنامے بھی عظیم ہیں۔چشم فلک نے عجیب عجیب مائیں دیکھی ہیں۔ایک ماں رات کو میدن جنگ میں لاشوں کے درمین پھر رہی تھی۔سپاہیوں نے پکڑ لائے۔شک تھا جاسوس ہے پتہ چلا کہ جنرل کی بیوی تھی استفسار کرنے پر کہا۔۔۔۔اُمید سے ہوں اگر یہ بچہ ہے تومیں اس کو جنرل بنانا چاہتی ہوں اگر بچی ہے تو اس کو جنرل کی ماں بنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔یہ طارق بن زیاد کی ماں تھیں ایک ماں نے اپنی زیورات بھیج کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی پوچھنے پر فرمایا۔میں اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتی ہوں۔پھر تاریخ اس عظیم ماں کے الفاظ اور نصیحت کا امین ہے۔ بولی آمی محمد علی کی جان بیٹا ’’خلافت‘‘پہ دیدو

ایک ماں جس نے چند اشرافیاں بیٹے کی قمیص کے نیچے سی کر اس کو جھوٹ نہ بولنے کی نصیحت کی وہی بیٹا شاہ عبدالقادر جیلانی بنے ایک ماں اپنے6سال کے بچے کو امام مسجد کے پاس قرآن سیکھانے لاتی ہے۔بچہ ادھا قرآن حفظ کیا ہوا ہے پوچھنے پر ماں کہتی ہے۔۔۔میں24گھنٹے پورا قرآن پڑھتی ہوں ۔15پارے رات سونے سے پہلے اس کو گود میں اُٹھائے پڑھتی ہوں اور15پارے صبح۔۔۔صبح یہ سوتا ہے۔شام کے پندرہ پارے اس کو یاد ہوچکے ہیں۔یہ فرید الدین گنج شکر ہیں۔ایک ماں اپنے شہید بیٹے کی پیشانی چوم کر کہتی ہے بیٹا ماں تجھ پہ واری۔۔۔ماں تم پر فخر کرتی ہے کہ تو اپنی خاک پہ قربان ہوئے۔آج بھی وہ ماں موجود ہے۔وہ معاشرے میں زندہ ہے۔وہ باوضو،باپردہ،باکردار باغیرت اور پاکیزہ ماں اگر زندہ نہ ہوتی تو یہ دنیا چوپٹ ہوتی۔یہ زمین شق ہوچکی ہوتی۔یہ رونقیں نہ ہوتیں۔یہ ترنم نہ گونجتے یہ نسیم سحر بند ہوتی۔یہ چاند نہ نکلتا یہ سورج آگ برساتا وہ ماں زندہ ہے۔اس کے زندہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہ شادمانیاں قائم ہیں۔یہ قہقہے ،یہ ولولے یہ ہاؤ ہو،یہ ارادے اور عزم وہمت یہ شوق جستجواور ذوق تعمیر زندہ ہیں۔یہ فضائیں شاہنوں سے آباد ہیں۔کائنات تسخیر ہورہی ہے۔مستقبل بنانے والا ماں کی گود سے کود کر انسانیت کی کارواں میں شامل ہوچکا ہے۔یہ ماں روزقوم کو کئی ڈاکٹر،انجینئر،پائلٹ،جنرل،سیاست دان،پروفیسر ،قانون دان دے رہی ہے۔اگر کاش سب مائیں ایسی نہیں ہیں۔اس لئے ہم پوری طرح سنورتے نہیں۔اگر اقبال کی ماں اقبال کو دودھ پلانے کے زمانے میں بینک کی کمائی سے پرہیز کرتی ہے اگر طارق کی ماں اس کو جنرل بنانے کی فکر میں ہے اگر محمد علی جوہر کی ماں اپنے زیوارت بھیجتی ہے تو کیا وہ غیرت آج کی ماں میں زندہ نہیں ہوتی بالکل ہوتی ہے۔موجود بھی ہے مگر بحیثیت قوم سب مائیں اس طرح غیرت والی ہوتی تو سوال پید انہیں ہوتا غیرت والی ماؤں کی تربیت کردہ یہ قوم چٹان بن جائے ۔ماں کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی جگہ اگر موتی نکلیں تو یہ موتی جوہری کاکام کریں گے اور معاشرہ جواہرات سے مالا مال ہوجائے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button