کالمز

’’جنم کا بندھن‘‘

hayatجنم کا بندھن بھی عجیب بندھن ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔انسان کا سب سے پہلا تعارف ہی مذہب کے بعدیہی ہے۔اخلاق و کردار کا ترازو بھی یہی اور تہذیب وتمدن کی کسوٹی بھی یہی ہے۔دولت وثروت کا لبادہ بھی یہی ہے۔جنم کا بندھن تمہیں ہر لحاظ سے عیان کرتا ہے۔۔۔۔کہاں سے ہو؟۔۔۔یہ عام سا سوال ہے اس کے لئے جواب سوچنا نہیں پڑتا۔انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جنم بھومی کانام لیتا ہے۔فخر کے قابل ہو تو فخر سے اور جنم بھومی فخر کے قابل نہ ہو تو سرجھکا جھکا کے نام لیتا ہے۔عرب فخر سے اپنے آپ کو عرب کہتے تھے اور دوسروں کو عجم کہتے۔۔۔یونانی فخر سے اپنے آپ کوIntroduceکرتے فارس والوں کو اپنی تہذیب پہ فخرتھا۔مسلمان اپنے عروج کے دور میں اس بندھن کو بھول گئے تھے۔کلمہ توحید نے ان کو آفاقی بھائی بھائی بنادیا تھا۔پھر جب بکھر گئے تو ترک،تاتار،تورانی،ہندی،خراسانی بن گئے۔ہٹلر اپنی نازی قوم کو دنیا کا حکمران سمجھنے لگا تھا اور’’میں جرمن ہوں۔۔۔۔کہہ کر گردن تانتے تھے۔۔۔اب امریکہ دندناتا ہے اور بھی کئی قومیں جو جنم کے بندھن میں مست ہیں مگر خیال معیار کی طرف نہیں جاتا۔جنم کے بندھن میں معیار کا بڑا دخل ہے تاکہ اس پر فخر کیا جاسکے۔لیکن مسئلہ فطرت اور خمیر کا ہے سب کے لئے جنم کا بندھن ناگزیر رشتہ ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں پاکستان سے باہر اگر ہمیں پاکستانی ملتا ہے تو یہ بندھن تڑپاتا ہے۔آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔دل دھک دھک کرتا ہے۔زبان ہلتی ہے باہیں پھیلتی ہیں اور دوسرے لمحے جنم کا بندھن ہویدا ہوتا ہے۔ملنے والا بغل گیر بھی ہوچکا ہوتا ہے بہت ساری باتیں بھی کرچکا ہوتا ہے۔

یہ سلسلہ صوبہ ،ضلع ،تحصیل اور گاؤں تک چلاجاتا ہے اور انسان کا ایک ’’شناختی کارڈ‘‘بن جاتا ہے۔۔۔جنم کا بندھن کبھی ٹوٹتا نہیں۔۔۔اپنی مٹی میں رہتے ہوئے ہزار اختلاف ہو۔لیکن یہ بندھن غیروں کے ہاں پھر سے جنم لیتا ہے۔جو لوگ اس بندھن کا لحاظ رکھتے ہیں وہ اپنی مٹی کا بھی احترام کرتے ہیں جو اپنے آپ کو کسی ملک کے حوالے سےIntroduceکراکے فخر محسوس کرتے ہیں وہ مقام سے گرجاتے ہیں ان کو کبھی اس مٹی کی خوشبو محسوس نہیں ہوتی۔بحیثیت پاکستانی ہمارا جنم کا بندھن مثالی ہونا چاہیے۔اگر ہم اپنا یہ بندھن بھول کے مشرق ومغرب کی طرف دیکھتے رہیں تو ہم تردد کا شکار ہوجائیں گے۔ہمیں آپنے آپ پہ شک ہونے لگے گا۔

اگر ہم پاکستانی ہیں تو پاکستان کی ہرچیز ہماری پہچان ہو۔اس کی تہذیب اس کی زبان ،اس کی ثقافت،یہاں کی بنی ہوئی ہرچیز،اس کی مٹی ہمیں ہماری جان سے پیاری ہو۔اس لئے کہ ہمارا جنم کا بندھن مضبوط ہے۔اگر ہم کوالٹی مانگنے کہیں اور چلے جائیں تو یہاں کوالٹی کس طرح جنم لے گی۔مگر افسوس اس بات کی ہے کہ ہم کوالٹی کی تلاش میں کہیں دور چلے جاتے ہیں۔اس لئے ہم Under estimateہوتے ہیں۔اور یہاں کی بنی ہوئی کسی چیز پہ Made in Pakistanکا لیبل لگانے سے ڈرتے ہیںیہ خوف کوالٹی کی ہوتی ہے۔جنم کے بندھن کا احساس ہوتو یہ ایک مضبوط رشتہ ہے۔اگر ہمیں اپنے اس بندھن پہ فخر کرنے کی جرات نہ ہو تو پھر ہم کس طرح اپنی مٹی اور یہاں کی بنی ہوئی چیزوں اور تہذیب وتمدن پہ فخر ہو۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button