گلگت بلتستان میں الیکشن کا موسم اور نئے نعرے
میرا تعلق اور میری ہمدردیاں کسی بھی سیاسی پارٹی سے نہیں اور نہ ہی میں نے آج تک کسی پارٹی کی حمایت کی ہے وفاقی سیاسی پارٹیوں کا وجود گلگت بلتستان میں قانونی ہے یا نہیں اس نکتے پر بھی میں بحث نہیں کرنا چاہتا.البتہ اس بات سے میں انکار نہیں کرسکتا کہ ان پارٹیوں کا اثر رسوخ گلگت بلتستان کے بے آئین خطے میں ضرور ہے .جہاں تک قوم پرست تحریکوں کا تعلق ہے تو وہ خطے میں کوئی سیاسی مقام حاحل کرنے میں تا حال ناکام دکھائی دیتے ہیں اس کی وجہ انکی غیرواضع سیاسی منشورراور موقف ہے ۔
ڈوگرہ راج سے گلگت بلتستان کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کے بعد سے آج تک خطے میں وفاقی سیاسی پارٹیوں نے باری باری خطے پہ حکمرانی کی ہے ان میں پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق لیگ وغیرہ شامل ہیں اور ہر پارٹی کا گلگت بلتستان کے ترقی کے حوالے سے الگ الگ دعوے ہیں پیپلز پارٹی کے حامی گلگت بلتستان میں قائم مختلف سابقہ ریاستوں میں شخضی نظام حکومتوں کے خاتمے اور آٹے کا کوٹہ موجودہ سیٹ اپ کی تشکیل اپنے پارٹی کے کارنامے قرار دیتے ہیں
اسی طرح ن لیگ بھی گلگت بلتستان کے ترقی میں اپنا کردار اہم اور خوشحالی پر مبنی قرار دے رہا ہے اور کئی منصوبوں کو پارٹی سے منصوب کرتے ہیں اس مقابلے میں ق لیگ بھی پیچھے نہیں قراقرم یونیورسٹی اور چائینہ کے ساتھ ہونے والے کئی منصوبوں کے معاہدے مشرف کے کارناموں میں شمار کرتے ہیں ۔
پچھلے الیکشن میں کئی دوسرے وفاقی پارٹیاں بھی دھواں دار انٹری کرچکے ہیں ان میں متحدہ قومی مومنٹ قابل زکر ہیں متحدہ قومی مومنٹ کا دعوی ہے کہ سابقہ الیکشن میں دھندالی نہ ہوتی تو شاید کئی نشستیں وہ حاصل کرچکے ہوتے ان کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تمام وفاقی سیاسی پارٹیاں گلگت بلتستان میں عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں کتنے سرخرو رہے ہیں یہ عوام کے سامنے ہیں ۔
گلگت بلتستان کے عوام کا حقیقی مسلہ شناخت اورآئین کا ہے کیا ہم پاکستان کے شہری ہیں،کیا موجودہ سیٹ اب صوبائی سیٹ اب ہے ،کیا وزیر اعلی اور گورنر کے پاس وہ اختیارات ہیں جو دوسرے آئینی صوبوں کے وزیراء او ر گورنروں کو حاصل ہیں ، اگر نہیں تو دنیا کے اس عجیب و غریب سیٹ اب جو گلگت بلتستان میں قائم ہیں اسکو کیا نام دیں؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان کے لو گ مملکت خداداد پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اورلازوال قربانیوں کی نشانیاں گلگت بلتستان کے ہر قبرستان میں سبز ہلالی پرچم کی صورت میں موجود ہ ہیں وطن عزید کا وہ کونسا سول اور ملٹری تمغہ ہے جو گلگت بلتستان کے لوگوں نے حاصل نہ کیا ہو ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کے ٹو پاکستانی ہے ننگا پربت پاکستانی ہے لیکن جب یہاں پر بسنے والا زندہ انسان کی بات ہوتی ہے تو وہ متنازعہ اور غیر آئینی ہے ان تمام محرومیوں کے باوجود یہاں کے محب وطن عوام اپنے آپکو پاکستانی کہنے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں اس سے بڑھ کر گلگت بلتستان کے لوگ اور کیا حب وطنی کا ثبوت دے سکتے ہیں ۔
شناخت اور آئین کے سوال سے ہٹ کر عوام کی روزمرہ زندگی میں جن مسائل کا سامنا ہے ان میں کرپشن ،بے روزگاری،صحت ،تعلیم ،مہنگائی ،لوڈشیڈنگ ،اقراپروری ،سفارش ،ناانصاجی اور نہ جانے کتنے مسلئے ہیں۔ان تمام مسائل کا حل میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح گلگت بلتستان کے عوامی نمائندے بھی ناکام رہے ہیں چاہے ان نمائندوں کا تعلق کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ ہو۔
اب ایک بار پھر گلگت بلتستان میں الیکشن کا موسم بلکل قریب ہے وفاقی سیاسی پارٹیاں ان سب عوامی مسائل کو حل کرنے اور خطے کی آئینی حقوق کے حصول میں نا کامی کے باوجود پھر سے سرگرم عمل دکھائی دے رہے ہیں۔اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ آئیندہ الیکشن میں ان وفاقی سیاسی پارٹیوں کا منشور کیا ہوگا کیا کوئی پارٹی خطے کی حقیقی مسائل کو اپنے منشور کا حصہ بنانے اور ان مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب بھی ہوسکے گا ۔ آئندہ انتخابات میں مزید سیاسی و مذہبی پارٹیوں کا آمد متوقع ہیں اور نئے سیاسی چہرے بھی نمودار ہونگے ،نئے نعرے بھی وجود میں ائیگے اور وعدے بھی ہونگے اب گلگت بلتستان کے عوام پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسائل کا حل سیاسی طریقے سے ہی ممکن ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی قیادت کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ عوام کے حقیقی مسائل کو اپنا منشور کا حصہ بناکر ان مسائل کے حل میں اپنا کردار اد ا کریں آئینی حقوق تو دور کی بات گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی انسانی ضروریات کیلئے احتجاج پر مجبور نہ کریں جس کی مثال حالیہ آٹے کی سبسڈی کا بحران تھا جسے عوام نے پرامن احتجاج کے زریعے منوایا
آئیندہ آنے والی سیاسی قیادت اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ وہ جس ایوان کیلئے منتخب ہوئے ہیں وہ اس ایوان کی حقیقی قانون سازی کی طاقت کوحاصل کریں تاکہ ملک کے باقی صوبوں کی طرح یہاں کے عوام کو بھی بنیادی انسانی اور آئینی حقوق کی فراہمی کرسکے ۔یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور عوام گلگت بلتستان کی قانونی حق بھی ۔
گلگت بلتستان کے عوام پرانے اور روایتی سیاسی نعروں سے تنگ آچکے ہیں زندہ باد، مردہ باد،جیتے گا اور ہارے گا کے نعرے پرانے ہوچکے ہیں اب ان نعروں کی ضرورت ہیں جن میں عوامی ترجمانی کی گونج ہواور ان میں اتنا اثر ہو کہ ایوانوں میں صاف صاف سنائی دے۔