کالمز

سیاسی نادان

شیخ سعدی کے بقول! اگر خصم جان تو عاقل بود، بہ از دوست دارے کہ جاہل بود۔

Hidayat Ullahفارسی کے شعر کا ترجمہ ہے۔ اگر تیری جان کا دشمن سمجھدار ہو اس خیر خواہ اور دوست سے اچھا ہے جو نادان ہو ۔نفرتوں کا انجام بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔چاہئے وہ لسانی ہو یا علاقائی، مذہبی فرقہ واریت کی شکل میں ہو یا کسی اور عنوان سے۔ حیران نہ ہوں یہ موضوع کوئی نیا نہیں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید لکھنے کی گنجائش موجود ہے ۔یقین نہیں آتا ہے تو ذرا اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دشمن نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کیا ہے،اور اس کا یہ حربہ ہنوز جاری و ساری ہے اور وہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے موقع و محل کے مطابق اپنے ایجنڈے کو عملی جامعہ پہناتا ہے۔ پاکستان کے حالیہ رونما ہونے والے واقعات سامراجی ایجنڈے کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ چند نادان دوستوں کو اس پہ بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن چشم بینا رکھنے والے لوگ تو اڑتی چڑیا کے پر بھی گن لیتے ہیں ۔ ۔کہیں جمہورت ،کہیں حقوق،اور کہیں نظام کے نام پہ جو کچھ اور جو ڈرامے سٹیج کئے جا رہے ہیں ان کے اصل حقائق سے عام آدمی نہ صرف بے خبر رہتا ہے بلکہ سہانے نتائج کی خوش فہمی میں اسے اپنی قیمتی متاع کے کھو جانے کا احساس تک نہیں رہتا اور جب اسے ہوش آتا ہے تو وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور وہ پھرکسی اور کی غلامی میں چلا جاتا ہے ۔سعدی کے قول کی طرف تھوڑی گہری نظر ڈالی جائے تو سمجھنے والوں کے لئے اس کے اندر بہت کچھ ہے ۔ اس پر مزید تبصرہ کرنے کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی ۔۔پاکستان میں رونما ہونے والے حالات اور واقعات سے چشم پوشی کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی سر زمین کی طرف آئیں اور تعصب کے چشمے اتار کر دل کی آنکھیں کھلی رکھیں تو جسم پر لگا ہوا ڈھیر سارا کچرا دیکھنے کو ملے گا اور بد بو کا احساس ہوگا جس سے گھن آئیگی۔

ایسے میں جب کوئی ہوشیار دوست اس بد بو کی نشاندہی کرتا ہے تو بجائے اس کچرے اور بد بو سے خود کو بچایا جائے الٹا اس دوست کو کچرہ اور بد بودار سمجھنا شروع کر دیا جاتا ہے ۔بیماری کی دوائی ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے اور ڈاکٹر جو دوائی تجویز کرتا ہے اس کی ہدایات کے مطابق ہی استعمال کر کے ایک مریض صحت یاب ہو سکتا ہے۔یہی حال حقائق کا ہے ۔اس خطے کا نام گلگت بلتستان رکھا گیا درمیان میں کچھ لوگو ں کو یہ نام پسند نہ آیا انہوں نے خوشیاں مناتے ہوئے اس کا نام بدل دیا اور اسے شمالی علاقہ جات کے نام سے پکارتے ہوئے نام تبدیل کرنے والوں کے قصیدے گائے۔اس وقت بھی سیانے دوستوں نے ہزارہا کہا پر ان کی ایک نہ سنی گئی پھر ان دوستوں نے اس قول کے مطابق کہ نام میں کیا رکھا ہے پھول کو جس نام سے پکارو اس کی خوشبو والی خاصیت برقرار رہتی ہے ۔اور ایک دن اس کی اصل خوشبو دوبارہ لوٹ آئیگی صبر سے کام لیا اور ہوا بھی ا یسا ان کا صبر کا پھل ان کو مل گیا ۔ ماضی کے گلگت بلتستان نے شمالی علاقہ جات کے مصنوعی عطر کو اپنے اندر جذب کرنے سے انکار کیا اور اپنی اصلی شناخت گلگت بلتستان جو ایک صدی اور چند سال پہلے مہارجہ کشمیر نے دیا تھا اسی نام سے جانا اور پہچانا جانے لگا ۔کیا یہ ایک حقیقت نہیں؟

جی بی کے نام کے حوالے سے اس حقیقت کے علاوہ کوئی اور حقیقت ہے تو دانشوراور لکھاری حضرات سے یہی توقع اور امید کی جا سکتی ہے کہ وہ تاریخ کے ان گم گشتہ اوراق کو سامنے لاکر عوام کی رہنمائی کرنے میں مدد گار بن جائیں تاکہ نام کی اصل حقیقت جو ابھی تک ان کی نظروں سے پوشیدہ رہی ہے سامنے آسکے ۔چند حقائق ایسے ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے ان میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کا ایک دوسرے پر بھروسہ اور اعتماد نہیں رہا ۔یہاں لوگوں سے مراد رہنما ،لکھاری اور دانشور ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔اس کی بڑی وجہ تعصب ہے اور یہ تعصب وہی ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔

کچرے کے ڈھیر میں لت پت رہنمائی اور لکھتے وقت صرف کچرا ہی نظر آتا ہے اور کچرے کے اس ڈھیر میں صاف والا حصہ عجیب اور بد زیب لگتا ہے ۔ اللہ کا فضل ہے کہ کہنے کی حد تک سب مسلمان ہیں ۔عقیدے کی بنیاد پہ تو اختلاف سمجھ میں ٓتا ہے لیکن سچ اور بد نصیبی یہ ہے کہ اس خطے کی سیاست کو بھی مذہب کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے سیاست کی دنیا میں بھی مذہب کے پتوں اور مہروں کی ایسی چال چلی جاتی ہے کہ تلوار یں نیاموں سے باہر آجاتی ہیں ۔اگر کسی کو یہ حقیقت نظر نہیں آتی ہے تو اسے نظر کی کمزوری ہی کہا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں ۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ مسلمان ایک قوم ہے اور بحثیت مسلمان قوم اس کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس خطے میں ابھی تک ہندوؤ ں کی طرح ذات پات اور علاقائیت کا رواج ہے ۔۔ڈیڑھ اور دو صدی قبل کی تاریخ دیکھی جائے تو سوائے چند قبیلوں کے گلگت بلتستان نام کی کوئی شے یا ریاست کا نشان اس خطے میں نہیں ملتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مہارجہ کشمیر نے اس خطے کا نام بغیر آذان کے گلگت بلتستان رکھا اور اس خطے کو ایک شناخت دی۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مہارجہ کشمیر کے اس کارنامے کو بڑی پزیرائی حاصل ہوئی اور ہمارے اسلاف نے مہارجہ کے گن بھی گائے اور وفادار بھی رہے جس کا مظاہرہ گورنر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری کے وقت بھی دیکھنے کو ملا۔ ہ

ونا تو یہ چاہئے تھا کہ دانا دشمن کی طرح مہارجہ کے اس کارنامے کی تعریف کی جاتی جن کی وجہ سے اس خطے کو ایک نام اور شناخت ملی دور کی بات لگتی ہے تعصب پرستی اور ناعاقبت اندیشی سے کی بدولت لفظ کشمیری کو گالی اور کشمیر کی بات کرنے والے کو غدار فرقہ پرست اور دیگر بہت سارے الفاظ جو ان سے ملتے جلتے ہیں نوازا جاتا ہے ۔۔کشمیر اور کشمیریوں کی مخالفت کرنے والے جانے یہ حقیقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ سرزمین جس کو مہارجہ کشمیر نے شناخت دی اور جنہوں نے سو سال سے زیادہ اس خطے میں راج کیا ۔اوراپنے اقتدار کو جب بھارت کے حوالے کیا تو اس کے نتیجے میں پاکستانی حکومت نے لشکریوں اور قبائلیوں کو کشمیر کی آزادی کے نام پر میدان میں اتار ا اور پھر ایک ڈرامے کے تحت اس خطے کو اپنی انتطامی عملداری میں لایا۔ کیا کوئی ان حقائق سے انکار کرسکتا ہے ۔اگر نہیں تو پھر کس قانون اور رواج کے تحت گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات کی جاتی ہے ۔۔۔سٹیٹ سبجکیٹ رولز، ریاستی تشخص اور سبسیڈیز کے جو مطالبات کئے جاتے ہیں ان سب کا محور کشمیر ہی ہے اگرکشمیر سے اس خطے کا تعلق نہ ہوتا تو یہ خطہ 1947 میں ہی ون یونٹ پاکستان کا حصہ بن چکا ہوتا اور آج یہاں کے لوگ گندم سبسیڈی کے لئے دھرنا دیتے اور نہ ہی مقامی اور غیر مقامی کا چکر ہوتا جو آج کل بڑے زور شور سے جاری ہے ۔۔۔۔

حقیقت تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان آج بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت جغرافیائی لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر کہلاتا ہے اور یہاں پر بسنے والے کشمیری ہی تصور کئے جاتے ہیں ۔چاہئے اس خطے میں صوبے کے نام سے یا کسی بھی پکیج کے تحت جو بھی نظام رائج کر کے کٹھ پتلیوں کو نچایا جائے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ہر فرد اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے پر تلا ہوا ہے ۔ایک دوسرے کو برداشت اور حقیقت سے دور خیالی پلاؤ پکانے کے علاوہ مثبت سوچ اور حقائق کا سامنا کرنے پر تیار نہیں ۔میں یہ بھی نہیں کہتا کہ میری سوچ حرف آخر ہے اور میں ہی عقل کل رکھتا ہوں باقی سارے کورے ہیں۔بس اتنی سی حقیقت کا اظہار کرنے کی اجازت دیں کہ گلگت بلتستان کی شناخت اور اس کی آئنی حقوق کی منزل کا راستہ کشمیر سے ہوکر ہی گزرتا ہے اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ درمیانی راستے سے کوئی انہیں پھلانگ کر یا کسی ہوائی جہاز سے پار لگا دیگا تو اسے ان کی نا سمجھی اور سیاسی نادانی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button