انسانیت کا فخر
گلگت ہسپتال کالونی کی رہائشی محترمہ نسرین ناصر کو حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ شجاعت دیا گیا ہے۔ اُنہوں نے گلگت میں ہونے والے ہنگاموں میں گِھرے چوبیس افراد کو اپنے گھر میں پناہ دے کر ان کی جان بچائی اور یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب ان کے شوہر راولپنڈی میں تھے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ گلگت میں تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب گلگت میں گھروں میں بیٹھے لوگوں کا خوف کے مارے پِتہ پانی ہو رہا تھا۔ ایسے میں ایک عورت ہوتے ہوئے اُنہوں نے انسانی ہمدردی کے ناطے 24 افراد کو موت کے منہ سے بچا لیا۔ یہ انسانی بھائی چارے کی ایک عمدہ مثال تھی۔ اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ یہ واقعی ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جو انہوں نے سر انجام دیا۔ اس پر وہ اخراج تحسین کی مستحق ہیں۔ اُنہوں نے وہی کیا جو ایک انسان انسانیت کے ناطے کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین! محض محترمہ نسرین ناصر ہی نے گلگت میں ہنگاموں کے دوران انسانی ناطے کی مثال ہی قائم نہیں کی بلکہ وہاں بہت سے شیعہ، سُنی اور اسماعیلی گھرانے اور بھی ایسے ہیں جنہوں نے اخوت اور بھائی چارے کا عملی ثبوت دیا۔ اگر انہیں کسی قسم کا کوئی تمغہ نہیں ملا تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ گلگت میں اخوت اور بھائی چارے کی کمی ہے۔ وہاں عام لوگ فرقہ پرستی کی مخالفت کرتے ہیں اور بھائی چارے ہی کا اسلامی درس سمجھتے ہیں۔ عام تاثر یہ پایا جا رہا ہے کہ تمغہ شجاعت دیتے ہوئے بھی جانبداری سے کام لیا جاتا ہے لیکن عوام کو سوچ لینا چاہیے کہ کارگل کا ہر شہید نشانِ حیدر نہ پا سکا اور یہ ہو سکتا ہے کہ لالک جان سے بھی زیادہ قربانی کی مثال کوئی گمنام سپاہی قائم کر گیا ہو۔ فرقہ پرستی تو سیاسی اور غیر ملکی ایجنٹوں کے شوشے ہوا کرتے ہیں۔
مکمل مضمون روزنامہ نوائے وقت کے ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہے۔