کالمز

گلگت بلتستان میں سیاسی بحران

72496 مربع کلومیٹر پر پھیلا گلگت بلتستان کی آبادی لگ بگ بیس لاکھ پر مشتمل ہے۔ اس خطے کو بلند ترین پہاڑی سلسلے قراقرم ، ہمالیہ، ہندوکش اور پامیر کے بدولت بہت اہمیت حاصل ہے۔جغرافیائی لحاظ سے گلگت بلتستان پوری دنیا بلعموم سامراجی ممالک اور بلخصوص امریکہ کے لئے ایک منفرد حثیت رکھتاہے۔جہاں یہ خطہ ایک طرف تین اہم ترین ریاستوں سے ملتا ہے تو دوسری جانب دیوسائی کا وسیع میدان عسکری اعتبار سے چین کے خلاف امریکہ کے لئے سونے کی چڑیا کی حثیت رکھتاہے۔اس جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ماضی میں روس اور برطانیہ نے اس خطے پر قبضے کی بارہا کو شش کی اور سامراج برطانیہ نے روس کے خوف سے مارچ 1935 میں گلگت بلتستان کو ڈوگرہ سے لیز پر لے لیا جو بعد ازاں یکم نومبر 1948 ء کو گلگت اسکاوٹس کی مزاہمت پر 16نومبر 1948ء تک ڈوگرہ سے آزاد ہو کر ریاست اسلامی جمہوریہ گلگت بن گیا اور اس اسلامی ریاست کا یہاں کی عوام کی خواہش پر پاکستان کے ساتھ الحاق گیا۔جب پاکستان کی جانب سے محض ایک نائب تحصیلدار سردار عالم کو پولیٹکل ایجنٹ بنا کر پورے گلگت بلتستان پر مسلط کیا گیا تواسلامی جمہویہ گلگت کے سابق حکمرانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا وہ ایک تلخ حقیقت ہے۔

تحریر بشیراحمد قریشی 
تحریر بشیراحمد قریشی 

حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو آزاد جموں وکشمیر کے ساتھ ملاکر اقوام متحدہ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کی۔لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ضم کیا گیا اور نہ ہی گلگت بلتستان کو مکمل کشمیر کا حصہ قرار دیا گیابلکہ 28اپریل 1949کو کراچی میں پاکستان کے وزیر مشتاق گورمانی ، مسلم کانفرنس کے غلام عباس اور آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم خان کے مابین معاہدہ کراچی ہوا اور اس معاہدے کے تحت شمالی علاقہ جات(حال گلگت بلتستان) کے اس حساس خطے کو یہاں کے عوام کے منشاء کے برخلاف عارضی طورپر خطے کا انتظام حکومت پاکستان کے سپرد کر دیابعدازاں وزیر امور کشمیر کو وزیر امور کشمیر وشمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) بنا کر اس خطے پر مسلط کیا گیاجو FIR کے ذریعے اس خطے کے امور نپٹاتی رہے اور صوبہ سرحد کا گورنرشمالی علاقہ جات( گلگت بلتستان) کا بھی ذمہ دار قرار پایا۔حالا نکہ چاہیے تو یہی تھا کہ اگر گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہونے کے ناتے صدر کشمیراس خطے کے علامتی صدر بن جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔وزارت امور کشمیر وقفے وقفے سے اس خطے میں اصلاحات کرتی رہی شروع میں اس وزارت نے ایک ریذیڈنٹ کا تقرر کیاجس کا عہدہ صوبائی گورنر کا مساوی تھا۔1970 میں شمالی علاقہ جات میں ایڈوائزری کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیاجو 14منتخب عوامی نمائندوں اور سات نامزد ارکان پر مشتمل تھی جبکہ شمالی علاقہ جات کا ریذیڈنٹ اس کا چیئرمین قرار پایا۔1973 میںFIR کے قانون کے خاتمے کے بعد ریذیڈنٹ کو شمالی علاقہ جات کا ریذیڈنٹ کمشنر بنادیا گیا۔1975 میں یہاں LFO لیگل فریم آڈر کا اجراء ہواجس کے تحت ایڈوائزری کونسل کو نادرن ایریاز کونسل (این اے کو نسل) کا درجہ دیا گیاجو 16منتخب ارکان پر مشتمل تھی۔1976 میں ریذیڈنٹ کمشنر کو کمشنر کا درجہ دیا گیااور کشمیر سے صوبائی حاکم کے اختیارات واپس لے لئے گئے یوں تمام اختیارات وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کے پاس چلے گئے۔1984 میں صدر جنرل ضیاء الحق گلگت بلتستان کیلئے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ دے دیااور اس کے ماتحت سیکرٹریٹ قائم کردیا۔1990 میں ایڈمنسٹریٹر کو چیف کمشنر کا عہدہ دے دیا گیا۔1994 میں بے نظیر دور میں نئے انتظامی و عدالتی اصلاحات نئےLFO کے تحت کی گئی جس کے تحت 1975 کا LFO منسوخ کر دیا گیااور امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دے دیا گیا جبکہ مقامی منتخب رکن کو ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اور 4 ارکان کو مشیر بنا کر ان کا عہدہ صوبائی وزیر کے برابر کر دیا گیا۔

LFO کے تحت شمالی علاقہ جات کے نئے قوائد و ضوابط (رولز آف بزنس) اور چیف کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیااور انتظامی امور کے لئے چیف کمشنر کا عہدہ بڑھا کر چیف سیکرٹری کردیا گیا۔1999 کے اصلاحات کے مطابق این اے کو نسل کو نادرن ایریا زقانون ساز کونسل (این اے قانون ساز کونسل)کا درجہ دے کر 49 امور پرقانون سازی کا اختیار دیا گیااس کے لئے اسپیکر قانون ساز کو نسل کے عہدے کا اضافہ کیا گیااور مالیاتی اختیاراتی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔سپریم کورٹ میں28 مئی 1999 کو کی گئی اپیل کے فیصلے میں وفاق کو ہدایت کی گئی کہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو انصاف کی فراہمی کے لئے اپیلٹ کورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے اور اسی فیصلے کی روشنی میں 2000 کو اپیلٹ کو رٹ کا قیام عمل میں آیا۔2002 میں ڈپٹی اسپیکرکا عہدہ قائم ہوا۔ دسمبر 2007 میں بزنس رولز میں ترمیم کر دی گئی جس کے تحت این اے قانون ساز کونسل کے نام میں تبدیلی کر کے قانون ساز کونسل رکھا گیا،ڈپٹی ایگزیکٹو کو چیف ایگزیکٹو اور چیف ایگزیکٹو کو چیئرمین قانون ساز اسمبلی بنا دیا گیا۔2009 میں مزیداصلاحات کے لئے پارلیمنٹ آف پاکستان کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کافی غور و فکر کے بعدگلگت بلتستان میں جماعتی بنیادوں پر آئندہ الیکشن کرانے سمیت الیکشن کمشنر ، گورنر ، وزیراعلیٰ، اپوزیشن لیڈر اور پبلک سروس کمیشن کے اعلاوہ بہت سارے اصلاحات کئے۔

اسی پیکج کے تحت ایک مرتبہ پھر اس خطے کا نام گلگت بلتستان پڑھ گیاجبکہ ایوان کو دو حصوں پر مشتمل کردیا گیا ایک ایوان زیریں اور دوسرا ایوان بالا ۔ایوان بالا کا چیرمین وزیراعظم کو بنادیا گیا۔قانون ساز اسمبلی میں براہ راست منتخب ہو کر آنے والے اراکین کی تعداد 24 سے بڑھاکر30 اور ٹیکنوکریٹس کی نشستوں کو تین کر دی گئی جبکہ خواتین کی مخصوص نشستیں ہر ضلع کے لئے ایک ایک مقرر کر دی گئی اسی طرح ماضی کے مشیر اس پیکیج کے بعد وزیر کہلائے جانے لگے۔اکتوبر 2010 میں اسی پیکیج کے تحت پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں الیکشن کرائے گئے جس میں پاکستان مسلم لیگ نون، مسلم لیگ ق، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام، متحدہ قومی مومنٹ ، عوامی نشنل پارٹی ، جماعت اسلامی اور قوم پرست جماعت بالاورستان نشنل فرنٹ نے حصہ لیا ۔ان انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نے پہلی پوزیشن جبکہ جمعیت علماء اسلام نے دوسری پوزیشن حاصل کرلی، ق لیگ نے تین ، مسلم لیگ ن دو ، ایم کیو ایم ایک اور بالاورستان نشنل فرنٹ نے ضمنی الیکشن میں ایک جبکہ اے این پی اور جماعت اسلامی کو ئی نشست نہ جیت سکی۔صوبے میں پی پی پی ، جے یو آئی نے مخلوط حکومت بنالی جبکہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ق سے بنایا گیا بعد ازاں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم بھی حکومت کا حصہ بن گئی یوں اپوزیشن لیڈر کی نشست مسلم لیگ ن کے حصے میں آ گئی۔موجودہ اسمبلی دسمبر 2014 کو اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے اور ایک مرتبہ پھر اس ایوان کو آئینی بحران کا سامنا ہے کیو نکہ پچھلے پیکیج میں نگراں حکومت کا کوئی ذکر نہیں اس کے لئے پیکیج میں اضافی ترمیم درکار ہے ، جس کا اختیار وزیراعظم کو حاصل ہے اور اسلام آباد ملک دشمن دھرنوں کی وجہ وزیراعظم گلگت بلتستان کیلئے ٹائم نکالنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے، جو کہ انتہائی آفسوسناعمل ہے۔ادھر دوسری طرف نئے الیکشن کمشنرکی تعیناتی بحران کی شکل اختیا ر کر رہی ہے اور اسی بات پر وزیر اعلیٰ اور گورنز گلگت بلتستان میں تھن گئی ہے۔

حقیقی معنوں میں اپوزیشن لیڈر کی نااہلیت کی وجہ سے اپوزیشن کا اصل کردار گورنر صاحب ادا کر رہے ہیں۔خود اپوزیشن لیڈر کی پارٹی رکنیت معطل ہو چکی ہے لحاظہ اپوزیشن لیڈر کی الیکشن کمشنر کیلئے مشاورت آئینی حثیت سے مشکوک ہو گئی ہے جبکہ ان کی زد ہے کہ وہ مشاورت کے اہل ہیں۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ جسے صرف بلتستان کا وزیر اعلیٰ سمجھا جا رہا ہے، الیکشن کمشنر کے حوالے سے گلگت بلتستان کی دوسری بڑی پارٹی اور پی پی پی کی جماعت ہونے کے باوجود مشاورت کرنا گوارہ نہیں کیاہے جس پر جے یو آئی نے سخت موقف اپناتے ہو ئے الیکشن کمشنر کے ایشو کو اڑے ہاتھ لیا ہے اور مطالبا کیا ہے کہ فلفور اس حوالے سے پارٹی کو اعتماد میں لیا جائے اور گلگت بلتستان کی آبادی کو مدنظر رکھ کر 11 نشستوں کا اضافہ کیا جا اگر 11 سے بڑھا کر من پسند ضلعوں کو نوازنے کی کوشس کی گئی تو جے یوآئی بھرپور احتجاج کرے گی۔وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ گلگت بلتستان کے مسائل حل کریں تاکہ موجوہ ایوان کو بحران کا سامنا نہ کر نا پڑے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button