کیلاشیوں کی تجہیز و تکیفین ،ایک انوکھا انداز
تحریر: امیرجان حقانیؔ
کیلاشیوں کے ہاں کچھ مہینے مقدس جانے جاتے ہیں۔ مثلاً مارچ اپریل مئی کو وہ اشہر مقدس خیال کرتے ہیں اور ان مہینوں میں کوئی مرجاتا ہے تو اس موت کو بھی مقدس موت کا نام دیا جاتا ہے۔ موت یا فوتگی کے حوالے سے بھی ان کی عجیب روایات ہیں۔ ان کی فوتگیوں کے تذکرے سے پہلے ان کے قبرستان کی بات ہوجائے، میں نے ان کے قبرستان کو تین دفعہ دیکھا، ایک دفعہ اکیلے، ایک دفعہ اپنے احباب کے گروپ کے ساتھ ، جن میں مولانا منیر، محمدنواز، مولانا نظیم اور عمر حسن تھے۔قبرستان میں رکھے گئے تابوتوں کے ساتھ ڈھیر ساری تصاویر بنوائی۔ مجھے یہ روایت درجنوں لوگوں سے سننے کو ملی کی کیلاش لوگ اپنی میتوں کو ایک تابوت میں رکھ کر کھلے آسمان تلے اپنے قبرستان میں چھوڑ جاتے تھے اور اس تابوت میں لاش کے ساتھ زیورات اور میت کی دیگر ضروری اشیاء بھی رکھ دیتے تھے مگر بعد میں وہاں سے یہ چیزیں چوری ہونے لگی تو انہوں نے اس رسم کو ترک کردیا اور اب دفنانا شروع کیا ہے۔ ان کے قبرستان میں بہت سارے تابوت رکھے ہوئے ہیں اور ان میں سوکھی ہڈیاں اور انسان کے جسمانی اعضاء مختلف شکلوں میں پڑے دکھائی دیتے ہیں۔
جب کیلاشیوں کے ہاں موت واقع ہوتی ہے تو ایک عجیب و غریب صورت حال پیدا ہوتی ہے جو دنیا کی انوکھی ثقافت اور روایت کہلائے جانے کی سوفیصد قابل ہے۔ کسی کے انتقال پر کیلاش کے باسی اپنا گھرتک لٹا دیتے ہیں یعنی کیلاشی لوگ شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات سے زیادہ خرچہ فوتگیوں پر کرتے ہیں۔خدا جانے اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ عام طور پر کسی کے انتقال پر بیس سے تیس لاکھ روپے تک خرچ آجاتا ہے.میت والا خاندان اپنے سارے اسباب حیات ، مال مویشی، گھر بار اور دیگر اشیاء بیچ دیتا ہے۔ ظاہر ہے اس صورت میں پھر سے ایک نئی زندگی گزارنے کے لیے انہیں تگ ودو کرنا پڑے گا۔
جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو لاش کو تین دن تک دفنایا نہیں جاتا، بارش یا برف باری ہوجائے تو لاش گھر کے اندر رکھ دی جاتی ہے، حالات کیسے بھی ہوں ، موسم گرم ہو یا سرد، تین دن سے قبل کسی لاش کو قبر نصیب نہیں ہوتی۔ میت کو کسی چبوترے یا چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے اور اس کی پسندیدہ تما م اشیا ، مثلا زیورات، میوہ جات اور سامان آرائش وغیرہ۔ اورمیت کی شان میں گانے گائے جاتے ہیں، مرثیے پڑھے جاتے ہیں ، اور دھاڑے مار کر رونے دھونے کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے۔ہمارے رہبر بھائی نورمحمد کے بقول گانوں کے ساتھ ڈانس بھی ہوتا ہے۔ جوشاہ کی موت کے تصویری مناظر سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔یہ سمجھنے سے بالاتر ہے کہ یہ خوشی مناتے ہیں یا غم۔اگر کیلاش کے کسی گھر میں میت ہوتو،کیلاش کی مسکراتی وادی غم و حزن میں مبتلا ہوجاتی ہے، اچھے دنوں کے پروگرام اور تقریبات ملتوی کیے جاتے ہیں۔ اور مصیبت کی اس گھڑی میں ہزاروں لوگ میت والوں کا دل رکھنے کے لیے ان کے ہاں جمع ہوجاتے ہیں۔
کیلاشیوں کے سردار ثروت نے مجھے تخصیص کے ساتھ بتایا کہ وہ میت کو اپنے معبد خانے لے آتے ہیں اور کئی رسوم یہاں ادا کرتے ہیں۔ان کے معبد خانے کی بیرونی دیواروں پر مارخورکی تصاویر کندہ ہیں۔اسی معبدخانے میں میت لائی جاتی ہے اور رسوم کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک مقامی مسلمان ساتھی نے مجھے بتایا کہ میت کواس جیسٹک ٹمپل میں لانے کے بعد، پھر مقامی لوگ عجیب و غریب منتریں پڑھنے لگتے ہیں….جیسے یہ کوئی عبادت ہو…..اس جیسٹک ٹیمپل کا انوکھاپن یہ بھی ہے کہ یہاں روشندان دیوار میں نہیں بلکہ چھت پر ہیں ۔ کیلاشیوں کی ان روایات اور صورت حال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ لوگ آج کی گلوبل دنیا میں نہی بلکہ قدیم وقتوں کی ثقافت کا حصہ ہیں اور ان کی کہانیاں و قصیں قدیم الیف لیلوی داستانوں کا ایک خاص حصہ معلوم ہوتیں ہیں۔ اکثر کیلاشی اپنے اپنے گھروں سے کھانے اور روٹیاں پکوا کر لاتے ہیں اور پھر اجتماعی کھانے کا ایک رواج بھی میت کے دنوں میں بیان کیا گیا۔جہاں میت ہوتی ہے پہلے دن ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔اس لئے لوگوں کو مختلف ٹولیوں کی صورت میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ کھانے دیسی ہوتے ہیں۔ مصالحہ جات اور دیگر چٹ پٹے کھانوں کا رواج نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں گوشت پانی میں ابال کر پکایا جاتا ہے۔ اشیاء خور نوش کا یہ سلسلہ سورج غروب ہونے تک جاری رہتا ہے اور پھر طلوع افتاب کے بعد کیلاش کی وادی اندھیرے میں ڈوبتی چلی جاتی ہے۔
ً میت کے دوسرے دن بھی عجیب رسومات ہوتے ہیں۔ میت پھولنے لگتی ہے اور بدبو بھی آنے لگتا ہے ، دوسرے دن ایک بزرگ آدمی کو میت کے حوالے سے تمام معاملات کو ڈیل کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔تدفین ،دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کی ضیافت، اور میت کے رشتہ داروں کے ساتھ معاملات غرض ہرچیز کا یہ بزرگ مہتمم خیال کرتا ہے۔ بقول نورمحمد کے ساٹھ ستر کے قریب بیل، گائے ، بکرے اور دنبے کاٹے جاتے ہیں اور ان کا گوشت مہمانوں کی ضیافت کے لیے استعماال میں لایا جاتا ہے۔
تیسرے دن میت کو دفنانے کا دن ہوتا ہے. کیلاشی دوشیزائیں اور دیگر اقارب ورشتہ دارمیت کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور آہ و زاری اور دیگر رسومات کے بعد میت کو دفنا دیا جاتا ہے۔ پہلے زمانے میں اکثر میتوں کو بمبوریت میں دفنایا جاتا مگر اب تینوں وادیوں کی میتوں کو اپنی اپنی وادی میں ہی دفنایا جاتا ہے۔ زیوات قبر میں رکھنے کا سلسلہ بھی متروک ہوچکا ہے۔ یعنی کیلاشی سمجھ دار ہوگے ہیں۔ میت کو دفنانے کے بعد حزن وملال میں ڈوبا مرد وزن کا یہ قافلہ دوبارہ لکڑی کے ان نئے اور پرانے گھروں کی طرف لوٹتے ہیں جو صدیوں سے ان کی جائے امان ہیں۔جب ایک نوجوان سے تابوتوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ یہاں تابوت بنانے والے نہ اپنی محنت اور ہنرکے پیسے لیتے ہیں نہ لکڑی کے، یوں سمجھ لیجیے کہ لکڑی کے یہ تابوت زندہ لوگوں کی طرف سے مرنے والے کے لئے آخری تحفہ دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں وادی بمبوریت کے گاؤں برون میں 120 سالہ جو شاہ کیلاش کا انتقال ہوا۔ اس موت پر عجیب رسومات سامنے آ گئے۔ اس کی لاش کو کیلاش قبیلے کے معبد خانے یعنی جسٹیک ٹمپل میں رکھا گیا ہے۔ جو شاہ کیلاش کی فوتگی رسومات پر پچاس بکرے ذبح کئے گئے ہیں اور دیسی گھی، پنیر اور دودھ والے پکوان کے پکائے کھانوں کے ساتھ مہمانوں کی ضیافت کی گئی۔سننے میں یہ بھی آیا کہ یہ بکرے مسلمانوں سے ذبح کروائے گئے تاکہ اس کا گوشت مسلمان بھی کھا سکے۔ جوشاہ کی میت کو جیسٹک ٹمپل میں رکھ کر اس کے قریبی رشتہ دار ان کے سرہانے بیٹھے گئے اس کے ٹوپی میں سو ، پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹ بھی سجاکر رکھے گئے ساتھ ہی اس کے سرہانے اخروٹ، خشک میوہ اور سگریٹ کا ڈبہ بھی رکھا گیا۔
جیسٹک ٹمپل میں لاش رکھ کر فائرنگ بھی کی گئی۔بچے کی ولادت اور مردے کی نعش پر فائرنگ کرنا ان کے مذہبی عقیدے میں شامل ہے۔جوشاہ رشتہ دار مرد حضرات ڈھولک نے ڈھولک بجائے جبکہ دیگر رسم فوتگی میں شامل خواتین نے ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ ڈال کر روایتی رقص پیش کی۔ اورعمر رسیدہ مرد ہاتھو ں میں کلہاڑی، تلوار یا کوئی چھڑی لیکر ناچتے رہے اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔جوشاہ کیلاش ولد ترانے خان نے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیوہ چھوڑا۔ان کو ایک لکڑی کی تابوت میں رکھ کر ان کے ساتھ اس کے زیر استعمال قیمتی سامان بھی اسی تابوت میں رکھ کر سپر د خاک کیا گیا۔