حفیظ الرحمن بمقابلہ مہدی شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے پانچ سالہ دور اقتدار کے آخری ایام میں ایک بار پھر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے صوبائی سربراہ حافظ حفیظ الرحمن کی جانب سے ایک دوسرے پر سنگین قسم کی الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور دونوں نے اس بار روایتی الزامات سے ہٹ کر ایک دوسرے کی کرتوتوں کے ثبوت بھی اکھٹا کرنے کا دعویٰ کررکھا ہے۔ گزشتہ دنوں جب وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کی کورکمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے کراچی کے دورے پر تھے تو اس دوران حافظ حفیظ الرحمن نے (ن) لیگ کے صوبائی سکریٹریٹ میں ایک ہنگامی پریس بریفنگ کے دوران وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کے خلاف وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں کہا تھا۔ اس بار تو انہوں نے وزیراعلیٰ کے خلاف سنسنی خیز انکشافات اور الزامات کی اس قدر بوچھاڑ کردی کہ عوامی و سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ حافظ حفیظ الرحمن نے وزیراعلیٰ پرسنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ مہدی شاہ نے بطور وزیراعلیٰ محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی بھر یتوں کے دوران امیدواروں سے براہ راست رشوت لیکر نوکریاں دیں اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے ٹھیکداروں اور سرکاری آفیسران سے کمیشن وصول کرتے رہے جس کا ان کے پاس ثبوت بھی موجود ہیں۔انہوں نے خود کو دودھ میں دھلا ہوا ظاہر کرنے والے وزیر اعلیٰ پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہوں نے سکردو میں شاہ ویلاز اور اسلام آباد میں وزیراعلیٰ ہاوس کی تعمیر میں ہونے والے کروڑوں کے گھپلوں کی تحقیقات نہ کرنے کی فریاد لیکر سابق چیف سکریٹری یونس ڈاگھا کے پاؤں پڑ گئے اورانکے خاندان کے آفیسران کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر معطل کرتے رہے۔ حافظ حفیظ الرحمن نے گیارہ اگست 2011کو علی آباد ہنزہ کے مقام پر نہتے مظاہرین پر پولیس تشدد اور اس کے نتیجے میں باپ بیٹے کے قتل میں بھی وزیر اعلیٰ کو ملوث قرار دیکر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کا بھی اعلان کیا اور ایک مرتبہ پھر صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی اور مبینہ کرپشن کے خلاف وائٹ پیپر جاری کرنے کا بھی اعلان کیا جو کہ انہوں نے اس سے قبل بھی ایک دفعہ جاری کیا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے وزیر اعلیٰ کے بہت سارے راز افشاء کئے۔ لیکن اس طویل گفتگو کے دوران حفیظ الرحمن نے کسی صوبائی وزیر یا بیوروکریٹ کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولا حالانکہ کرپشن اور سرکاری ملازمتوں کی بندر بانٹ میں بعض صوبائی وزراء کے حوالے سے باتیں تو زبان ذرعام ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود حفیظ الرحمن کی خاموشی کے پیچھے یا تو کوئی خاص وجہ کارفرما تھی یا تو اس کی تفصیل وہ اپنے آئندہ جاری کئے جانے والے وائٹ پیپر میں بیان کرنے جارہے ہیں۔
حافظ حفیظ الرحمن کی پریس بریفنگ کی خبریں اخبارات میں شائع ہونے کے اگلے روز ہی وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی جانب سے بھی ایک مختصر مگر جامع بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے حافظ حفیظ الرحمن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس کا جواب قانونی راستے کے زریعے دینے اور خود کو عدالتی کمیشن کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنے کا اعلان کردیا۔ مہدی شاہ کے بقول حفیظ الرحمن نے ان کی ذات پر حملہ کیا اور کوئی حکومتی عہدے پر تعینات نہ ہونے کے باوجود (ن) لیگ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے خوب کرپشن کی جس کے ثبوت انہوں نے بھی اکھٹے کرلئے ہیں جو وہ عدالتی کمیشن کے سامنے پیش کرینگے۔ ساتھ ہی ساتھ وزیر اعلیٰ نے اپنی بااختیاری کے ثبوت کے طور پر یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ حفیظ ان پر جس بیوروکریٹ کے پاؤں پڑنے کا الزام لگا رہے ہیں اس کو تو انہوں نے ہی صوبے سے باہر نکال دیا تھا۔ یوں دونوں رہنما اخبارات کے زریعے ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے نظر آئے۔ تاہم یہ تو عدالتی کمیشن کے سامنے ہی معلوم ہوگا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے ،کس کے الزامات میں زیادہ وزن ہے اور کون جھوٹے بیانات کے زریعے اپنی سیاسی دکان چمکانے کے چکروں میں ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دونوں اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے صوبائی سطح کے ذمہ داران ہونے کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح کے منجھے ہوئے سیاستدان بھی ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ ایک برسراقتدار اور دوسرا اقتدار سے باہر ہے ۔ ان دونوں کے بیانات میں وزیر اعلیٰ کا حفیظ الرحمن کی جانب سے عائد کردہ الزامات کے جواب میں خود کو عدالتی کمیشن کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنے اور حفیظ صاحب کی جانب سے سانحہ علی آباد کی ازسرنو تحقیقات کرنے اور وزیراعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے لئے قانونی راستہ اختیار کرنے کا اعلان انتہائی اہم اقدامات ہیں ۔ہونا بھی یہی چاہیے کہ اس قسم کے معاملات کو بجائے کاونٹر سٹیٹمنٹس کی حد تک لینے یا ذاتیات کی حد تک لے کر جانے کے قانونی راستے سے ہی حل کیا جائے تو اس سے نہ صرف علاقے میں ایک جمہوری روایت کو فروغ ملے گا بلکہ آئندہ کے لئے غیرقانونی طور پر کام کرنے والوں کے لئے ایک سبق بھی حاصل ہوگا۔ دوسری بات جس کا وزیر اعلیٰ صاحب نے اپنے بیان میں سابق چیف سکریٹری کو صوبے سے باہر کر نے کا جو دعویٰ کیا ہے، اس سے میں بالکل اتفاق نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو گلگت بلتستان کے چیف سکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کی تعیناتی اور تبالے میں وزیراعلیٰ کا کوئی کردار ہی نہیں ہوتا نہ ہی اس سلسلے میں ان سے کوئی مشاورت کرتا ہے۔ یہ وفاقی حکومت کا کام ہے کہ وہ جس کو چاہے یہاں کے لئے چیف سکریٹری اور آئی جی پی تعینات کریں اور جب چاہے اس کا تبادلہ کروائے ۔ ماضی میں بھی وزیراعلیٰ نے اپنے ناپسندیدہ بیوروکریٹس کے تبالے کے لئے سرتوڑ کوششیں کیں لیکن اس میں وہ بری طرح ناکام رہے اور حال ہی کی بات ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران جب دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کے حوالے سے وفاقی حکومت کو ایک گمراہ کن خط تحریر کرنے کے الزام میں ممبران اسمبلی کی جانب سے متعلقہ سکریٹری کو او ایس ڈی بنانے اور ان کا فوری تبادلہ کرنے کے پرزور مطالبے کے باوجود وزیراعلیٰ نے ایوان میں یہ اعتراف کرلیا کہ وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ اس سلسلے میں چیف سکریٹری کی خدمات لے سکتے ہیں۔ اس سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے پاس جب ایک عام سکریٹری کے خلاف کارروائی کا کوئی اختیار نہیں تو وہ وفاقی حکومت کی جانب سے تعینات ایک ٹاپ بیوروکریٹ کو وفاق کی مرضی ومنشا کے بغیر کیسے علاقہ بدر کرسکتے ہیں ۔
ہاں البتہ وزیر اعلیٰ نے اپنی جماعت کے مرکزی قائدین کی مدد سے اس کام کو ممکن بنایا تھا تو اس بات کاانہیں اپنے بیان میں برملا اظہار کرنا چاہیے تھا کہ میں نے اپنی پارٹی کے فلاں بندے کے زریعے مجھے نظروں میں نہیں لانے والے سابق چیف سکریٹری کا تبادلہ کروایا ایسا نہ کرنے سے اس قسم کے مبہم بیانات سے وزیر اعلیٰ کا جھوٹ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ دوسری جانب حفیظ الرحمن صاحب کے الزامات میں وزن اس لئے ہے کہ اول توسیدمہدی شاہ ایک نیم صوبائی سیٹ اپ کے سربراہ کی حیثیت سے بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کسی قسم کی بدعنوانی میں ملوث ہیں تو اس سے بڑا قومی مجرم اور کوئی نہیں ہے کیونکہ وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ کی سربراہی میں صوبائی حکومت کے اس پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران سرکاری محکموں میں کرپشن ، رشوت ستانی اور اقرباپروری کا ہر طرف چرچا رہا جس کی براہ راست ذمہ داری وزیراعلیٰ ہی پر عائد ہوتی ہے۔ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو ہیں اور ہر کام ان کی مرضی و منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے اس معاملے میں وزیر اعلیٰ کا احتساب اور اقتدار سے قبل اور بعد کے اثاثوں کی تفصیلات کو منظرعام پر عام پر لانا انتہائی ضروری ہے۔حفیظ صاحب کا سانحہ علی آباد کی تحقیقات کا مطالبہ اور اس معاملے میں وزیراعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی درخواست کا اعلان بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ جب صوبے کے سیاح وسفید کے مالک ہی ہیں تو پھر صوبائی سطح پر ہر اچھے اور برے کام کا نتیجہ بھی انہی کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
اگر لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاون کی آڑ میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ملوث قرار دیا جاسکتا ہے تو سانحہ ہنزہ میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کو ملوث کیوں نہیں دیا جاسکتا۔ واقعات دونوں ایک ہی نوعیت کے ہیں، دونوں میں حکومتی پولیس فورس کی فائرنگ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں جوکہ کلام خداوندی کے مطابق’’ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل‘‘ قرار دیاگیا ہے تو ایسے میں اس قتل کی ذمہ داری پنجاب میں ایک وزیر اعلیٰ، اس کی کابینہ کے ارکان اور ملک کے وزیراعظم پر عائد کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے تو یہاں پر یہ اقدام کیوں نہیں اٹھایا جاسکتا۔ میرے خیال میں حفیظ صاحب کی جانب سے تین سال بعد سانحہ ہنزہ کے معاملے میں وزیراعلیٰ کے خلاف مقدمہ درج کروانے کا ہوش بھی سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد آیا ورنہ اسی وقت ہی ٖحفیظ صاحب یہ اقدام اٹھاتے تو ابھی تک مہدی شاہ صاحب کا حشر بھی یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور رانا ثنااللہ سے کم نہ ہوتا۔بہرحال ابھی بھی وقت ہے کہ حفیظ صاحب نہ صرف وزیر اعلیٰ بلکہ صوبائی کابینہ کے تمام ارکان کااحتساب اور انکے اثاثوں کی تفصیلات سے متعلق عوام کو اگاہ کرنے کے لئے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کریں اور حکومتی کارستانیوں کی داستانیں وائٹ پیپر کی شکل میں سامنے لانے کی بجائے اسے تمام تر شواہد کے ہمراہ عدالت ہی میں پیش کریں ۔ ساتھ ہی ساتھ وزیر اعلیٰ صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ بھی حفیظ صاحب پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات اور اپنی پاک دامنی کے ثبوت بھی عدالت ہی کو پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے۔ ورنہ بغیر ثبوت کے میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف محازارائی کا یہ سلسلہ حواس باختگی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔