تعلیمکالمز

عالمی یومِ اساتذہ

 الواعظ نزار فرمان علی

 ہر سال ۵ اکتوبر کو اساتذہ کا دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحت منائے جانے والے دن کا مقصد اساتذہ کرام کی علمیت ، انتھک محنت اور بے مثال ایثار و قربانی پر اجتماعی طور پر گلہائے عقیدت و خراجِ تحسین پیش کرنا ، اساتذہ جو کہ معاشرے میں تعلیم کو عام کرنے اور تعمیر و ترقی کو وسعت دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ،ٹیچرز کی لا زوال خدمت کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے سوسائٹی کے سٹیک ہولڈرز کی جانب سے اخلاقی و سماجی سپورٹ کو یقینی بنانا تاکہ مستقبل کے معماروں کی شخصیت سازی کے تقاضے بطریقِ احسن انجام پا سکیں۔
 یہ وہ ہستی ہے جو والدین کے ارمانوں کا مان قائم رکھنے ، طالب علموں کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے ، قوم کی امنگوں کو پورا کرنے ، ملک و ملت کو مستقبل کے چیلنجز اور ضرورتوں کے مطابق بہترین قیادت فراہم کرنے اللہ اور اس کے پیارے حبیب محمدﷺکی وصیت کے مطابق نورِ علم کو روئے زمین کے طول و عرض میں پھیلانے کا عظیم فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ استاد ایک ایسا ماہر طبیب ہے جو طالب علم کو ذاتی خودی کے خول سے نکال کر انائے کلی کا حصہ بنا دیتا ہے، ایک جیتی جاگتی تجربہ گاہ ہے جہاں اسلاف کے فکری ، ادبی اور ثقافتی ورثہ، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر نئی نسل میں منتقل ہوتاہے۔معلّم ایک ایسا جوہری ہے جو طلباء کی ہستی کے کان سے لعل و گوہر دریافت کرتا ہے، جو تشنہ گان علم کے لئے حقیقت کا غوطہ خور بن کر دریائے علم و آگاہی سے حکمت کے مونگے و موتی نکال لاتا ہے۔ایک کامیاب مدبرو منتظم کی حیثیت سے طالب علم کی ذاتی دنیا کے تمام گوشوں ، جسم ،روح اور عقل کو باہم مربوط کر کے توازن و اعتدال سے کمال کی طرف لے جاتاہے۔ ایک شفیق علمی / روحانی باپ کی حیثیت سے ظلمت کی پستیوں سے اٹھا کر عقل و خرد اور اخلاق و تہذیب کے آسمان کا ستارہ بنا دیتا ہے۔ 
 جہاں والدین بچوں کی جسمانی تربیت و نشونما کا ذریعہ ہیں تو استاد ان کی علمی و روحانی نشونما کا سبب ہیں۔جس طرح بچے اپنے والدین سے یہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح اپنی زندگی کے سکھ چین کو قربان کر کے ایک کنبے کو پروان چڑھانا ہے تو دوسری طرف ایک معلّم مثلِ شمع خود جل کر نئی نسل کو شاہراہِ زندگی پر کامیابی سے چلنے کا گُر سکھاتے ہیں۔جس طرح والدین زبان، طور طریقے اور حیاء و عفت کا ذریعہ ہیں اسی طرح اساتذہ حق و صداقت ، فکرو نظراورلیاقت و مہارت کے اسباق سکھاتے ہیں، جس طرح ایک کشتی کے دو چپو ہوتے ہیں اگر ملاح اسے ایک ساتھ حرکت دے تو کشتی منزل کی جانب بڑھتی ہے ایسے ہی بچے کے مستقبل کی کشتی کے دو چپو والدین اور اساتذہ ہیں اگر یہ دونوں چپو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آواز اور ہم آہنگ ہو کر چلیں تو پھر یہ نئے جہاں تلاش و آباد کرنے کے قابل بن جائیں۔
 اساتذہ کے مقام کو سمجھنے کے لئے دین اسلام کی تعلیمات پر غور و فکر کرنا پڑے گاقرآن حکیم میں اللہ رب العزت اپنے آپ کو معلّم قرار دیتا ہے۔(القرآن)اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی منشاء و حکمت سے انبیاء ؑ خاص طور پر نبی کریمﷺکو تمام انسانیت کے لئے استاد کی حیثیت سے مقرر فرمایاہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے\” پیغمبرﷺتمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے\” (القرآن)اس حوالے سے اساتذہ کے لئے شرف وتکریم کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ اس عظیم پیشے کی وجہ سے رسول اکرمﷺ سے ایک خاص نسبت حاصل ہو گئی۔آپﷺفرماتے ہیں\” مجھے تو معلّم ہی بنا کر بھیجا گیا ہے\”۔ جب قرآنی تعلیمات کے مطابق جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہیں بلکہ جاننے والے ہی حقیقی معنوں میں خوفِ خدا اور بزرگی رکھتے ہیں جبکہ نبی پاک ﷺ ہمیشہ علم میں اضافے اور اشیاء کو حقیقی معنوں میں جیسی کہ وہ ہیں جاننے کی دعا مانگا کرتے ،علم کو جنت کے راستوں کا نشان اور علم و حکمت کو مومن کی گمشدہ متاع قرار دے کر جہاں کہیں سے بھی ملے اسے حاصل کرنے کو لازم قرار دیاہے۔
 ذرا سوچئے! کہ علم جو کہ بیش بہا خزانہ ہے اس کے حاملین کی قدرو منزلت کتنی زیادہ ہوگی۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں\” جس سے میں نے ایک حرف بھی سیکھ لیا وہ میرا آقا ہے او ر میں اس کا غلام ہوں” ۔ ایک مرتبہ کاتبِ وحی رسولﷺ حضرت زید بن ثابتؓ کسی جنازے میں شامل ہوئے، نماز کے بعد جب گھوڑے پر سوار ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے رکاب تھام لی حضرت زیدؓ نے فرمایا : اے رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی رکاب چھوڑ دیجئے حضرت ابن عباسؓ بولے کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ عالموں اور بڑوں کی تعظیم کریں یہ سن کر حضر ت زیدؓ نے ابن عباسؓ کا ہاتھ چوم لیا اور فرمایا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺکے گھر والوں کا احترام اس طرح کریں۔ تمام صحابہ کرامؓ بھی اسی طرح ایک دوسرے کی عزت و احترام کیا کرتے تھے۔ حضرت محمدﷺکا ارشاد پاک ہے\” علم حاصل کرو اور علم کے لئے متانت اور وقار پیدا کرو اور جس جگہ سے تعلیم حاصل کرو اس سے خاکساری برتو” ۔
آج کے دور میں نظام تعلیم کی پستی کی وجوہات میں ایک اہم وجہ معلمین کے لئے احترام و تعظیم کا نہ ہونا ہے، آئے دن تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے ساتھ ناروا سلوک، بد تمیزی ، امتحانی مراکز میں دھونس دھمکیاں، تعلیمی اداروں اور طلباء کے وقار کے لئے ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ایسی شرمناک حرکتوں کی وجہ سے حصولِ علم رحمت کی بجائے زحمت کا باعث بنتا جا رہا ہے جس کا منفی اثر مجموعی طور پر ملک و معاشر ے پر تنزلی و پسماندگی کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔ داناؤں کا قول ہے با ادب با مراد ، بے ادب بے مراد، یعنی جب تک زمین نرم نہ ہو عمدہ بیج اثر نہیں دکھا سکتااور صراحی بھی اس وقت سیراب ہوتی ہے جب وہ سرنگوں ہوجب تک سیپی بر وقت اپنا منہ نہ کھولے اس وقت تک وہ موتی کے قابل نہیں ہو سکتی لہٰذا علم و ہنر اور فن و ادب الغرض کسی بھی شعبے کے استاد کا احترام و اتباع لازمی ہے اس سے نہ صرف حصول علم سہل بن جاتا ہے بلکہ جان و عقل میں برکت ، سعادت اور کشادگی پیدا ہو جاتی ہے۔

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب

 اساتذہ کے لئے بہترین علم کے مطابق عمل کا ہونا بھی ضروری ہے، علم کے ساتھ عمل و ادب جزو لاینفک ہیں اگر اعلیٰ علم ،عمل و ادب سے محروم ہو تو علم نا صرف بے فائدہ و بے ثمر بلکہ الٹا نقصان کا ذریعہ بن جاتا ہے جیسا کہ ابلیس بہت بڑا عالم و عابد تھا لیکن عمل و اخلاق سے عاری ہونے کی وجہ سے راندہ و درماندہ ہو گیالہٰذا اساتذہ کا بھی علم و عمل میں یکساں طور پر پختہ ہونا ضروری ہے۔

 تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

میں اپنے مضمون کا اختتام سکند ر اعظم کے مشہور تاریخی واقعے سے کرتا ہو ں ایک مرتبہ وہ کسی مہم پر جا رہے تھے راستے میں ان کے استاد محترم ارسطو آگئے، سکندر نے جب انہیں دیکھا تو اپنی پوری فوج کو روک لیا اور اپنے پیارے استاد کو ملنے کے لئے سواری سے اتر گئے ان کی خیریت معلوم کی ، ارسطو نے انہیں کہا آپ نے میری وجہ سے بہت سے لوگوں کو رکوا دیا، سکندر اعظم نے کہا جناب آج مجھے جو مقام ملا ہے وہ تو آپ کی وجہ سے ملا ہے باپ تو مجھے صرف دنیا میں لایا اور آپ کی وجہ سے میں پستی سے بلندیوں پر پہنچ گیا ہو ں۔ اے استاد تیری عظمت کو سلام۔
/اللہ تعالیٰ تمام اساتذہ کرام کے جان ،مال ،خاندان ، علم و ایمان اور عزت و آبرو میں ہزاروں برکات نصیب فرمائے۔/آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button