بشالینی آف کیلاش اور عورت کا اصل مقام
قارئین میں اپنے اس سفرنامے کو مختصر کرنا چاہتا ہوں مگر یہ طول پکڑ رہا ہے۔ بہرصورت بشالینی کا تذکرہ کیے بغیر میں اس سفرنامے کو نامکمل سمجھتا ہوں۔کیلاشی عورت کو اس کی سوسائٹی میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔عورت کو مخصوص ایام، ایام ولادت ، معاشرتی زندگی اور دیگر معاملات میں رذیل سمجھا جاتا ہے۔غور سے دیکھا جائے تو ان دنوں میں عورت کا مقام اچھوت سے بھی گِرا ہوتا ہے۔ باوجودیکہ کئی حوالوں سے اس کو آزادی بھی حاصل ہے۔ مثلاً شوہر کے انتخاب میں وہ مکمل آزاد ہوتی ہے۔ جب بھی کیلاشی لڑکی کا جی چاہیے وہ کسی کے ساتھ بھی جا سکتی ہے۔ اپنے محبوب کے حوالے وہ اپنے سرپرستوں کے ساتھ کھل کر ڈسکس بھی کرسکتی ہے۔اس کو برا نہیں منایاجاتا ۔آئندہ کی سطور میں عورت کا اصل مقام، عورت اور مرد میں امتیاز، حیض و نفاس میں اسلام کی طرف سے دی گئی رخصتیں اور پھرایک کیلاشی عورت اس صورت حال میں کن مراحل سے گزرتی ہے اس کا مختصر جائزہ لیں گے۔
عورت اور مرد کی قوتیں اور صلاحیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عورت جسمانی طور پر مرد سے کمزور ہے اور زیادہ محنت و مشقت برداشت نہیں کر سکتی۔ پھر عورت کے ساتھ کچھ ایسے عوارض بھی لاحق ہیں جو اسے مسلسل اور سخت محنت سے روکتے ہیں ۔ اس کا آغازِشباب ہی ماہواری سے ہوتا ہے اور جب تک وہ جوانی کو خیر باد کہ کر بڑھاپے کی دہلیز میں داخل نہ ہو جائے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔اس کے علاوہ اسے حمل و رضاعت کے سخت اور جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔حیض،نفاس اور استحاضہ اس کے سِوا ہیں۔ یہ چیزیں اس کی صحت ، وقتِ کار اور مزاج پر اثر ڈالتی ہیں ۔ یہ چیزیں جہد مسلسل اور محنت کی راہ میں مانع ہیں۔ عدل و انصاف اور فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے میں اس کمزور جاں عورت پر اس سے کچھ کم بوجھ ڈالا جائے جتنا بوجھ مرد پر ڈالا جاتا ہے۔
یہ بات بھی اٹل ہے کہ عورت کا مزاج ، اس کے رجحانات و نفسیات بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایک عو رت کے اندر محبت ومودت ،غم گساری،ہمددری و دلداری ، قربانی و ایثار ، صبر و تحمل اورخدمت کے جذبات مرد سے زیادہ ہی ہوتے ہیں۔ان کی وجہ سے وہ اپنے ماحول کو مسرت و راحت اورلجوئی ومحبت سے بھر سکتی ہے۔
یہ بات ہرگز عورت کی خیر خواہی میں نہیں جاتی ہے کہ اسے اس فطری دائرہ کار یا فطرت حقیقی سے نکال کر غیر فطری دائرہ کارمیں پہنچا دیا جائے۔ اس صورت میں عورت کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر خسارے کی بات ہے۔عورت جب تک عورت ہے وہ ماں بننے ، حمل و رضاعت کی تکلیفیں برداشت کرنے اور حیض و نفاس اور استحاضہ کی تکلیف دہ کیفیات سے گزرنے پر مجبور ہے۔ ان مشکلات اور پیچیدگیوں میں مرد اس کے ساتھ معاونت نہیں کرسکتا۔باوجود اس کے مرد کی ذمہ داریاں بھی اس نازک اندام پر ڈالنا غیر فطری اور ظلم و جبر سے کم نہیں۔ان تمام تکالیف کے بعد ایک عورت سے یہ کہا جائے کہ وہ کماکر گھر سنبھالے۔ یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم و ستم ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ عورت کو تمام تقاضوں سے آزاد کرکے صرف بچوں کی تربیت، گھر کا نظام اور امور خانہ داری سنبھالنے کی ذمہ داریاں دی جائے تاکہ وہ ہر قسم کی ٹینشن سے آزاد ہوکر ایک باکمال امت وقوم کی تعمیر کرسکے۔جب باکمال قوم وجود میں آئیگی تو معاشرتی انقلاب خود آجائے گا۔بہرصورت عورت کو جنس بازار اور مختلف محکموں میں در بدری کے ٹھوکرے کھانے سے بچایا جانا چاہیے۔ اس کو اس کا اصل اور حقیقی مقام ملنا چاہیے۔ وہی مقام جو محمد ﷺ نے ازواج مطہراتؓ کو دیا تھا اور حضرت علیؓ نے فاطمۃ الزھرۃؓ کا دیا تھا۔
اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان جھوٹے اور غیر ضروری امتیازات کا خاتمہ کردیا ہے۔جدید جاہلی تہذیب کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ سارے انسان ایک جان سے پیدا ہوئے ہیں۔ سب کی اصل ایک ہے۔ اسلام کے آفاقی صولوں کے مطابق پیدائشی طور پر نہ تو کوئی شریف ہے اور نہ رذیل ، نہ کوئی اچھی ذات کا ہے اور نہ بد ذات کا۔ سب برابر اور مساوی حیثیت کے مالک ہیں۔ صرف اور صرف اہل تقویٰ کو برتری حاصل ہے۔ سورۃ النحل میں ارشاد ربانی ہے ’’ من عمل صالحا من ذکر اور انثی فلنحیِینہ حیاۃ طیبۃولنجزِینہم اجرہم باحسن ماکانو یعملون‘‘ یعنی جو کوئی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے،اور انہیں ضرور ان کا اجربھی عطا فرمائیں گے، ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔
بشالینی کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا، مگر جو دیکھا وہ اس سے بھی زیادہ تھا۔ بشالینی وہ جگہ ہے جہاں ایام ممنوعہ اور ایام زچگی کے دوران عورتیں قیام کرتی ہیں ۔شہزادہ خان کیلاشی کی بیٹی شاہین گل پشاور یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ ہے۔ میرے استفسار پر اس نے بتایاکہ’’ تمام کیلاشی وادیوں میں بشالینیاں ہوتیں ہیں۔ تاہم بمبوریت میں سرراہے یہ بشالینی ہے۔ یہ بشالینایں ہماری بہترین درسگاہیں بھی ہیں‘‘۔ میں جب کراکال کا چکر کاٹ رہا تھا تو بشالینی کا پوچھنا ہمت نہیں ہورہی تھی۔ شرم آگیر لیتی۔ قبرستان اور معبدخانے کے دو چکر کاٹنے کے بعد سڑک پر آیا تو انکل محمد نواز نے کہا کہ وہ دیکھو ، وہی مخصوص جگہ ہے۔ میں نے سنا تھا کہ بشالینی ایک بڑا کمرہ ہوتا ہے جس کے نہ روشن دان ہوتے ہیں اور نہ روشنی اور ہوا کے لیے کوئی اور جگہ ۔ یہ کمرہ مکمل تاریک ہوتا ہے اور یہاں خواتین کے علاوہ کوئی نہیں جاتا۔ تاہم بمبوریت میں جس عمارت کی طرف میری رہنمائی کی گئی تھی وہ تو ایک بہت بڑا ایریا معلوم ہوا۔ اس عمارت کا جائزہ لیا تو اس کا صرف ایک مرکزی دوراہ نظرآیا۔ دروازے سے باہر ایک جنگلہ تھا وہاں پانچ کیلاشی خواتین کھڑی تھیں، دو کے پاس بچے تھے اور دو بالکل دوشیزائیں تھی اور ایک بڑی پیٹ کی خاتون تھی شاید حاملہ ہو۔ میں روڈ میں کھڑے کھڑے ان سے گفتگو کرنے لگا۔ میں نے پوچھا کہ اس وقت بشالینی میں کتنی خواتین ہیں تو ایک خاتون نے کہا کہ بتیس خواتین موجود ہیں۔ اگلا سوال یہ تھا کہ اس راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے تو جواب نفی میں ملا۔ان کی گفتگو سے یہ معلوم ہورہا تھا کہ اس عمارت میں کئی کمرے ہیں اور عمارت کی ظاہری وضع قطع سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ کسی این جی او نے تعمیر کروایا ہے۔ باتوں باتوں میں ، میں نے بشالینی کے جنگلے پر ہاتھ لگایا جس پر کھڑی ایک خاتون نے چیخ لگائی اور کہا کہ ہاتھ ہٹاؤ، میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں؟ اس کا جواب میرے توقع کے بالکل مختلف تھا۔ کہا کہ پلید ہوجاؤ گے۔ میں نے کہا کہ نہیں میں اس جنگلہ پر ہاتھ لگانے سے پلید نہیں ہوجاؤنگا تو اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور کہا’’ اس وقت ہم سب نجس ہیں۔ یہ پوری عمارت نجس ہے۔ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ ہم ناپاک اور نجس ہیں۔ اور جہاں ہم رہتیں ہیں وہ جگہ بھی پلید اور نجس ہے‘‘۔بشالینی میں مقیم عورتوں کی گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ کیلاش حائض عورتوں کو پلید یا نجس سمجھتے ہیں۔ ان کو گھروں میں رکھنا معیوب بلکہ حرام سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کا پکایا ہوا کھانا نہیں کھایا جاتا، نہ ہی ان کے ساتھ ان ایام میں کسی بھی قسم کا اختلاط و امتزاج ہوتا ہے۔
اگر بشالینی میں بچے کی پیدائش ہوجائے تو باہر سے کوئی ایک خاتون اس کی مدد کے لیے جاسکتی ہے وہ بھی مکمل برہنہ ہوکر۔ کیلاش کی نوجوان دوشیزائیں ایام ممنوعہ کے دوران بشالینی میں قیام کرتی ہیں اور وہ متجربہ خواتین کے ساتھ اپنی محبت، اپنے بوائی فرینڈ، جنسی تعلقات اور مستقبل کے حوالے سے کھل کر بات چیت میں حصہ لیتی ہیں اور ازدواجی اورخانگی مسائل پر بھی سیر حاصل گفتگو کرتی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ راز داری اور اعتماد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پرانی اور متجربہ خواتین اس بشالینی میں نوجوان دوشیزاؤں اور حسیناؤں کو محبت و نفرت کے سارے گُر سکھاتی ہیں۔یعنی کیلاش تہذیب کوپروان چڑھانے کے لیے بشالینی ایک تربیت گاہ اور درسگاہ بھی ہے۔
حیض اورنفاس فطری ہیں۔کسی عورت کو اس سے مفر نہیں ۔ان ایام میں اللہ تعالیٰ نے عورت سے بہت ساری ذمہ داریاں ختم کی ہے اور اس کے کاموں کو سہل اور آسان کردیا ہے۔خدا تعالیٰ کی ہر تخلیق میں حکمت ہوتی ہے اور ہر حکم بھی حکمت سے بھرا ہوتا ہے۔حیض کے حوالے سے ارشاد رب العزت ہے ۔ ویسلونک عنِ المحِیضِ قل ہوأ ذی، فاعتزِلوا النِسا فِی المحِیضِ ولا تقربوہن حتی یطہرن فاذاتطہرن فاتوہن مِن حیث امرکم اللہ ان اللہ یحِب التوابِین ویحِب المتطہِرِین ۔ \”وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجے یہ ایک گندگی ہے پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور وہ جب تک پاک نہ جائیں ان کے قریب نہ جا ؤ۔پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس اس طریقہ سے جاؤ کہ جس طرح تمہیں اللہ نے حکم دیاہے ۔ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتاہے ۔(سورہ بقرہ )، لیکن کیلاشی ایک حائض عورت کو احترام و اکرام اور اس کے کاموں کو سہل کرنے کے بجائے اس سے ایک اذیت میں ڈالتے ہیں اور اس کو پلید سمجھتے ہیں۔وہ قولا اور عملاً ایام ممنوعہ اور دوران زچگی عورت سے مکمل بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ایک عورت کے لیے سب سے مشکل لمحات یہی ہوتے ہیں ، ان لمحات میں اس سے محبت، حوصلہ اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے مگر کیلاش تہذیب وثقافت عورت کو اس سے محروم رکھتی ہے۔