کالمز

’’اسے کہنا دسمبر آگیا ہے‘‘

hayatرب کائنات نے ارض پاکستان کو چاروں موسموں کی خوبصورتیوں سے مالا مال کردیا ہے پھر آب وہوا کی موزونیت کمال کی ہے۔جہاں پر آب وہوا گرم وہاں پر گرمی کی ساری پیداوار ۔جہاں پر متعدل وہیں پر وہی انعامات ،جہاں پر سردی وہاں پر ایسے ہی انعامات کی بارش ہے۔سندھ میں گرمی نہ ہوتی تو چاول کہاں سے آتا۔پنجاب میں بارشیں نہ ہوتیں توگندم کہاں سے آتی۔خیبر پختونخواہ پہاڑی نہ ہوتا تو پھلیں میوے کہاں سے آتے۔۔بلوچستان میں صحرا نہ ہوتے تو تیل اور گیس کہاں سے آتی۔۔۔ملک خدادادپرتبصرہ کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے کہا تھا۔کہ ایسا مالامال علاقہ ہے کہ اگر100سال تک اس کی تعمیر کی بجائے س کھایا ہی جائے تو اس پر فرق نہیں پڑے گا۔اس کی پیشنگوئی درست ثابت ہورہی ہے۔ملک خداداد کے باشندوں کو چاہیئے تھا کہ اس میں موجود اللہ کے انعامات سے بھرپور فائدہ اُٹھائے۔۔۔مگر ایسا نہیں کرسکتے ۔شاید ان کی مجبوریاں ان انعامات کے راستے میں روکاوٹ ہوں۔یہ سارے موسم ا ور یہ آب وہوا کی بوقلمونیاں ان کے لئے عذاب ہیں۔گرمیاں آتی ہیں تو وہ گرمی میں جھلس جاتے ہیں۔ان کے پاس جھونپڑیوں تک میسر نہیں ان کو بغیر گیس،بجلی اور پانی تک گذاراکرنا پڑتا ہے۔پھر مون سون آتا ہے تو سیلاب ان کو بہاکر لے جاتا ہے۔وہ ابھی گرمی اور سیلاب سے بچنے کی تگ دو میں ہوتے ہیں کہ سردیاں آتی ہیں اب ان کو کمروں،گرم بستروں ور گرم کپڑوں کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ سب ان کے پاس میسر نہیں ہوتے ۔ان کے لئے پیسے چاہیے ہوتا ہے۔۔۔وہ تگ ودو میں تھے اگر ان کو تھوڑی سی فرصت مل گئی ہوتی تو فکر کرتے منصوبہ بندی کرتے بندوبست کرتے مگر ایسا کرنے کا وقت ان کے پاس نہیں ہوتا یہ سارے موسم آدھمکتے ہیں۔۔۔ابھی ان کو سردی سے نجات کی جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔جان کھپا کر تھک ہار کے اپنے اور اپنے اہل وعیال کو سردی سے بچانے کا بندوبست کرتے ہیں۔اللہ اللہ کرکے مارچ کا مہینہ آتا ہے سردی کا زور ٹوٹتا ہے گرم کپڑوں اور گرم بستروں کی ضرورت نہیں ہوتی تب نیا تعلیمی سال،بچوں کا داخلہ ،ان کی فیس اور امتحان وردی وغیرہ کی مصیبت آجاتی ہے۔انہی دوڑ دھوپ میں جون کا مہینہ آتا ہے۔جھلسنے ،آگ میں جلنے اور سیلاب میں بہنے کا موسم نآتا ہے پھر ان کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ لو شام ہے یہ صبح ہے۔۔۔دن رات کے پہروں بارش کے قطروں ،ہوا کے جھونکوں سے یہ بے خبر ہوتے ہیں موسم گذرتا ہے۔پھر دسمبر آتا ہے۔ان کی زندگیوں میں کتنے دسمبر آتے ہیں گذرتے ہیں کتنی سردیاں کتنی گرمیاں گذرتی ہیں۔جن کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں ان کو کیا پتہ چلے ان کے لئے ہر لمحہ عذاب ہے۔ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو اللہ کی نعمتوں کو Enjoyکررہے ہیں۔ان کی

سردیوں کی اپنی شان ہے ان کی گرمیوں کی اپنی خوبصورتی ہے۔وہی سمجھتے ہیں کہ بہار آتی ہے خزان جاتی ہے ان کو احساس ہے کہ سورج نکلتا ہے چاندنی چھٹتی ہے نسیم کے بجھونکے ہوتے ہیں۔ابشار کے جھرنے ہوتے ہیں۔سمندر کی لہریں ہوتی ہیں دریاؤں کی موجیں ہوتی ہیں گرم سوئیٹرز ہوتے ہیں۔ہلکے کاٹن ساٹن کے کپڑے ہوتے ہیں۔خوبصورتی کے کترنمزہوتے ہیں۔صحت مند خراک ہوتی ہیں موج مستی ،سیر سپاٹا اور فطرت سے لطف اندوز ہونے کے انداز ہوتے ہیں ان کے مقابلے مجبوروں کے لئے دسمبر ناگن بن کر جون بیچھو بن کر اور مارچ اژدھا بن کرآتا ہے۔فطرت کا قانون ہے زندگی ایک جیسی نہیں ہوتی۔سب نعمتیں سب کو میسر نہیں ہوتیں۔معاشرے میں اونچ نیچ ہرکہیں ہے۔مگر ’’ بنیادی‘‘ضروریات کی جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے ان کو پورا کرنا ریاست کا،قوم کا اور حکمرانوں کا فرض ہوتا ہے۔اگر کوئی غریب بجلی کا بل ادا نہیں کرسکتا وہ الگ بات ہے مگر بجلی تو میسر ہو،گیس پانی موجود ہوں سڑک بنے ہوئے ہوں ان پر کوئی پیدل اور کوئی قیمتی گاڑی میں سفر کرے گا ،تعلیمی ادارے ہوں ،ہسپتال ہوں وہ سب کچھ ہوں جن کو ضرورت مندوں کو ضرورت ہوتی ہے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔س لئے دسمبر کا آنا کسی کے لئے اچھی خبر ہومگر اکثر وں کے لئے بُری خبر ہے۔مگر کسی من چلے نے یوں کیوں کہا ہے؟۔۔۔۔۔’’اسے کہنا دسمبر آگیا ہے‘‘ ۔۔۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button