کتاب ” صدائے بام دنیا” کا تنقیدی جائزہ
تحریر: احمد جامی سخی
ڈا کٹر ندیم شفیق ملک کی تازہ ترین تصنیف ” صدائے بام دنیا” ( وخی زبان ، ادب و معاشرت پر ایک نظر) کی ایک کاپی جو کہ انہوں نے ہدیتہ عنایت کی ہے۔ اور ادارۂ فروغ زبان ، وزارتِ اطلاعات ، نشریات و قومی ورثہ نے تزین و آرائش کے بعد اسکی طباعت کا فریضہ انجام دیا ہے۔ اور نہ صرف قومی زبان اردو کی عظیم خدمت سر انجام دی ہے۔ بلکہ پامیری زبانوں کی ایک قدیم اور اہم شاخ وخی زبان، ادب اور معاشرت پر زیر نظر کتاب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
کتاب کے دیباچہ سے پتہ چلتا ہے۔ کہ موصوف محقق نے ابتدائی طور پر اسے اپنے ایم فل کے لئے تحقیقی مقالہ کے طور پر تحریر کیا تھا۔ لیکن معروف اسکالر ڈاکٹر انعام الحق اور چند دیگر اساتذہ و احباب کی تحریک پر ڈاکٹر ندیم ملک صاحب نے اسکے دائرے کو وسعت دیکر اسے ایک کتاب کی صورت دی ہے۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ مختلف موضوعات پر تحقیق کر کے مواد اکھٹا کیا ہے۔ اور ناقدین کیلئے بہت کم گنجائش رکھی ہے۔ کہ وہ کسی پہلو سے بھی انگشت نمائی کریں یا تنقید کا نشتر چلا سکیں۔ ڈاکٹر موصوف کا ہر جملہ اور ہر پیراگراف حوالہ جات سے مزینّ ہے۔
زیر تبصرہ کتاب” صدائے بام دنیا” کی چند اہم خصوصیات بیان نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ مثلا کتا ب کا ٹائیٹل صفحہ بہت ہی دیدہ زیب اور عنوان کی مناسبت سے ترتیب دیا گیاہے۔ کتاب کے پشتی صفحہ پر ڈاکٹر موصوف کا مختصر شخصی خاکہ اور ادبی خدمات کی جھلک انتہائی جامع انداز میں پیش کی گئی ہے۔
264صفحات پر مشتمل یہ کتاب عرض ناشر، پیش لفظ کے علاوہ چھ ابواب ، اختتامیہ ، ضمیمے، کتابیات اور اشاریہ پر مشتمل ہے۔
وخی زبان پر تحقیق کرنے والے ایک عظیم اسکالر ڈاکٹر باغشاہ لشکر بیکوف کا دعوی ہے کہ وخی زبان اور ثقافت کے آثار تین ہزار سالوں پر محیط ہیں۔اس حوالے سے وخی زبان اور قومیت کے بارے میں مشرقی و مغربی ماہرین لسانیات و عمرانیات کی دلچسپی ایک فطری عمل ہے۔ ڈاکٹر موصوف اس لحا ظ سے خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس اہم شعبہ پر قلم اٹھاتے وقت زیر نظر زبان و ثقافت کے سیاق و سباق ، جغرافیائی حالات اور دوسری زبانوں اور ثقافتوں کے اتصال اور اثرات پر بھی دقیق مواد فراہم کیا ہے۔ اور نہ صرف پامیری زبانوں اور زبانچوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیا ہے۔ بلکہ قارئین اور محققین کی توجہ پاکستان کے شمالی انتظامی صوبہ گلگت بلتستان کی جانب بھی مبذول کرائی ہے۔
چونکہ ہر قومیت کیلئے انکی مادری زبان انتہائی اہمیت بلکہ کافی حد تک جزباتیت کا سبب بھی ہوتا ہے۔ اسلئے موصوف نے وخی زبان کے حروف تہجی ، گرامر یا صوتی خواص کے بارے میں بہت ہی احتیاط سے کام لیتے ہوئے مقامی محققین استاد حقیقت علی مرحوم، احمد جا می سخیؔ اور معروف وخی اسکالر فضل امین بیگ کے مقالہ جات اور قاعدہ کی کتابچوں کو بطور ضمیمہ شامل کر کے کتاب کی اہمیت کو چار چاند لگا دیا ہے۔
راقم یہ کہنے میں حق بجانب ہے۔ کہ مصنّف نے ” صدائے بام دنیا” تحریر کر کے نہ صرف وخی زبان اور قوم پر احسانِ عظیم کیا ہے۔ بلکہ لسانیات، عمرانیات اور علم الا نسانیات سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے اہم بنیادیں استوار کر دیا ہے۔ نیز حوالہ جات کتابیات کی تفصیل اور اشاریہ کے سبب آنے والے محققین کیلئے عمارت کی تعمیر کے ساتھ ساتھ تزئین و آرائش کے عمل کو بھی آسان کر دیا ہے۔ وخی زبان سے دلچسپی رکھنے والے موصوف کے علمی خدمات کی سراہنا کرتے ہیں۔ اور دعا گو ہیں کہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ! (آمین)