’زندگی‘‘
’زندگی کیا ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جو لاینحل ہے۔ ہر ایک نے اس کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔اسلام نے زندگی کے فلسفے کو کس انداز میں پیش کیا ہے اس پر اس لیے بات زیادہ نہیں کرونگا ، کیونکہ ہم مجموعی طور پر اسلام بیزار ہوچکے ہیں۔اور بالخصوص اہل ادب تو اسلام بیزاری کو سندِ اعزاز سمجھتے ہیں۔تاہم حفیظ شاکرؔ کی کتاب پڑھنے کے بعدان پر اسلام بیزاری کا بینر فٹ نہیں کیا جاسکتا۔زندگی کیا ہے؟اسے کون سمجھے اور کیوں سمجھے، اوراسے بھلا کوئی کب سمجھا ہے تو میں اور آپ سمجھیں گے۔ ہاں زندگی کا الٹ موت ہے اور پھر موت کیا ہے؟ بدیہی حقیقت یہ ہے کہ موت تو بر حق ہے۔سوال یہ ہے کہ بر حق کیا ہوتا ہے؟۔ برحق تو وہ ہے جسے ٹالا نہ جا سکے۔قرآن کا فیصلہ مگر یہ ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔سادھ الفاظ میں ہر زندگی کو موت کے کنویں میں جاگرنا ہے۔
عبدالحفیظ شاکرؔ کی کتاب زندگی موصول ہوئی۔یہ مختصر سی کتاب صرف اور صرف زندگی کے گرد گھومتی ہے۔ ایک ہی موضوع پر اتنی شاعری کرنا مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں۔یہ کتاب ان کی کتابِ زندگی نہیں بلکہ موضوعِ زندگی پر ان کی شاعری کا مجموعہ ہے۔ وہ ارشادکرتے ہیں کہ
زندگی کی ابتداء بھی ہے عجیب
اور اس کی انتہاء بھی ہے عجیب
زندگی مٹی ہے مٹی زندگی
اس تخیل کا خدا بھی ہے عجیبمیں نے کتاب زندگی کو ہاتھ میں لے کر زندگی کے متعلق سوچنا شروع کیا۔عجیب آدمی ہوں کتاب نہیں پڑھ رہا بلکہ زندگی کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔کیونکہ میری زندگی بھی عجیب زندگی ہے۔ مجھے لگا کہ زندگی منسوب ہے۔ کس کے نام ؟ ارے وہ نہیں جو آپ سوچ رہے ہیں۔بلکہ زندگی منسوب ہے سانسوں کے چلنے سے،زندگی منسوب ہے دلوں کے دھڑکنے سے، زندگی منسوب ہے آہوں کے مچلنے اورخوابوں کے سنورنے سے بلکہ سنور کر بگڑنے سے۔زندگی منسوب ہے خیالات کے ابھرنے سے، زندگی منسوب ہے دل کے دربدر ہونے سے۔اور سچی بات یہ ہے کہ زندگی منسوب ہے محبوب کے ملنے سے۔وہ زندگی بھی کیا زندگی جو محبوب کے بنا گزرے۔پَر محبوب کونسا ؟وہ جس کو خود زوال ہے؟۔محبوب کا نام زندگی ہے اور وہ کیسی زندگی جو اپنی زندگی کسی اور سے مانگے؟بہر صورت سادھ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ حرکت کانام زندگی ہے اور جو جو تھم جائے۔وہ زندگی نہیں۔
آج کوشش کرونگا کہ حفیظ شاکر صاحب کی نئی نویلی کتاب’’زندگی ‘‘ پر کچھ کلمات لکھوں۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ تو شاعری کی کتاب ہے اور میں رہا شاعری سے کامل کورا۔ تو کیا ہوا؟۔ پطرس بخاری اور اس کی میبل بغیر پڑھے بلکہ بغیر درمیانی ورقے پھاڑے کتابوں پر تبصرے کرسکتے ہیں تو میں’’ زندگی ‘‘کے اشعار ، پڑھ کر بغیر سمجھے تبصرہ کیوں نہیں کرسکتا۔ عبدالحفیظ شاکرؔ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے کہ وہ شاعر زیادہ ہے یا نثر نگار بلکہ وہ ادیب زیادہ ہے یا فنکار۔جو انہیں ادیب مانتے ہیں وہ فنکار تسلیم نہیں کرتے اور جو فنکار تسلیم کرتے ہیں وہ ادیب کب تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جو بھی ہے وقت فیصلہ کرے گا تاہم اتنا ضرور عرض کرونگا کہ وہ استاد ضرور ہیں وہ بھی سرکار کی پکی ملازمت کا۔ کیونکہ تین لاکھ والے استاد بھی تو بہت زیادہ ہیں آج کل۔ تو اب سنتے ہیں استاد عبدالحفیظ شاکرؔ کے کچھ اشعار،لیکن یہ اشعار نثر میں ہونگے یعنی استاد حفیظ شاکر ؔ کے اشعار کو نثری قالب میں ڈھال دیا جائے گا۔
وہ کہتا ہے کہ ’’ خو د اپنے اندر ڈھونڈ لوگئے تو آپ کو زندگی ملے گئی، جب زندگی ملے گی تو اللہ کی بندگی بھی عطاء ہوگی‘‘واقعتا سچ کہا ہے۔
وہ اقدار کے مٹنے پر بھی سیخ پا ہیں۔ فرماتے ہیں’’ زندگی کی ساری قدریں مٹ گئی، برہنہ بازار میں ہے زندگی‘‘۔ یار اس برہنگی سے تو واقعی موت اچھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’ کہیں کچرے میں زندگی لت پت ہے تو کہیں زندگی کسی کوٹھے کی زینت بنی ہوئی ہے۔ کہیں چمن زاغوں کے تصرف میں ہے تو کہیں مغربی تہذیب مشرق کا کفن بن گیا ہے۔ زندگی کو لوٹانا ممکن ہے اور اس کے لیے شرط ایمان ہے۔ جب یہ نہیں تو پھر زندگی میں بے حسی کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں تو زندگی اپنی وقعت اور وقار کھودیتے ہے‘‘۔
استاد حفیظ شاکرؔ کے نزدیک’’ زندگی نمرود کے قہر میں غلطاں ہے تو ابراہیم کے لیے آگ کو گلستان کردیتی ہے زندگی، حسن یوسف ؑ زندگی کا ترجمان ٹھہرتا ہے تو لحنِ داؤدی بھی زندگی کی پہنائیوں میں ہوتا ہے۔‘‘‘
یارا سنو۔ کیا غضب کا فرماتے ہیں’’ خاکِ پائے مصطفی ہے زندگی ، جراتِ شیرِ خدا ہے زندگی‘‘۔ سچ یہ ہے کہ مصطفی ﷺ کی جوتیوں کی خاک جب ہماری آنکھوں کہ سرمہ نہ بنے تو پھر ایسے زندگی سے موت اچھی ہے۔ کیونکہ ایسی زندگی سے پرواز میں کوتا ہی آجاتی ہے۔
نونہالوں کے حوالے سے زندگی کو یوں بیان کرتے ہیں’’ ننھے منے بچوں کی لڑائی بھی زندگی ہے، چھوٹوں کی بڑائی بھی زندگی ہے، کتنے دلکش زندگی کے روپ ہیں،سرخ انچل میں کڑائی زندگی ہے‘‘۔
عشق مصطفی ﷺ کو زندگی میں یوں بیان کرتے ہیں’’ عشق احمد میں گزارو زندگی، دوستوں مل کر سنوار و زندگی، بحرمیں سیرت کے ہوکر غوط زن، دہر میں اپنی نکھارو زندگی‘‘ یعنی جو بھی سیرت محمدی ﷺ سے کے دریائے لولوء و مرجان میں غوط زن ہوکر نقوش زندگی پائے گا اسی کی زندگی سنورے گی۔
عبدالحفیظ شاکر ؔ شاعر ہیں۔ اور شاعر اپنی شاعرانہ خُو سے کب باز آتا ہے۔ شاعری میں مہہ جبینوں ا ور نازنینوں کے نخروں کو مرکزی جگہ حاصل ہے۔ اس حوالے سے بھی انہوں نے خوب کہا’’ فتنہ گر ہے مہہ جبینوں کی نظر، توبہ توبہ نازنینوں کی نظر، راکھ کرتی ہے جلاکر زندگی، گُل بدن، گُل رخ حسینوں کی نظر‘‘۔بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ مہہ جبینوں نے بڑے بڑے انقلاب برپا کیے ہیں۔
عشق خلفائے راشدین اور ان کا آپس کا تعلق یوں بیان کرتے ہیں’’ داستانِ زندگی تحریر کر، ’’اذ ہما فی الغار‘‘ کی تفسیر کر، چار یاروں کی نرالی شان ہے، زندگی اپنا قلم شمشیر کر‘‘۔
غیراللہ سے کنارہ کشی کو کس ظالمانہ اسلوب میں بیان کیا ہے ’’ اہل دل کا ہے یہ قول معتبر،’’زیر‘‘ ہو جا زندگی!مت بن زبر۔ ’’پیش‘‘ ہونا ہے تجھے اک دن ضرور، ماسواللہ سے بچا قلب و نظر‘‘۔ ظاہر ہے فلاح وہی پائے گا جو قول و فعل میں خدا کے سوا کسی کو سجدہ ریز نہ ہو۔اور تمام انبیاء کا بھی یہی متفقہ تبلیغی لائحہ عمل تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
مزدور کی ترجمانی یوں کرتے ہیں’’یہ قلم مزدور کا ہے ترجماں، جن کے نیچے خاک سر پر آسماں‘‘ ۔
پھر غربت کو کس پیرائے میں لیا ہے’’ تنگ دستی میں تڑپتی زندگی، بھوک سے پیہم سسکتی زندگی،دن بدن ہاتھوں سے مٹی کی طرح،دھیرے دھیرے ہے سرکتی زندگی‘‘۔ خدا کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’کاد الفقر أن یکون کفراً‘‘ ۔ فقر اور تنگ دستی سے تو انسان سسکتے سسکتے کفر کو قبول کرلیتا ہے۔
قارئین !زندگی کیا ہے سوائے ایک طویل مسافت کے، ۔ ایک ایسی مسافت جس کی منزل تو متعین نہیں ، اگر منزل متعین ہے بھی تو
راہیں جدا جدا۔ میری زندگی کیا ہے کسی کو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔پھر کن راہوں پر چل کر زندگی کو سمجھا جاتا ہے ۔خود کی پہچان کیا ہوتی ہے۔ بہر صورت بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں زندگی کے متعلق۔ استاد حفیظ شاکرؔ کی زیر مطالعہ کتاب ’’زندگی‘‘ پڑھنے سے شاید کئی سارے انجانے سوالات کے جوابات مل جائے۔کیا یہ سچ نہیں کہ نئی راہیں، نئے منظر، نئے نقوش، نئی زندگی اور نئی باتیں آپ کی منتظر ہیں۔ہر موڑ میں نئی راہ ہے اورپھر سے ایک نئی راہ سے ملنے والے تمام پھولوں اور کانٹوں کو چن کر آپ نے اپنا دامن بھرنا ہے۔۔ اور آگے بڑھتے جانا ہے۔ بڑھتے جانا ہے۔ اسی کو تو زندگی کہا جا سکتا ہے۔
’’زندگی ‘‘ کو غور سے پڑھا۔ زندگی میں زندگی کی رمق مل گئی۔ شاعری کے رموز و اوقاف سے زیادہ آگاہی نہیں تاہم ’’ زندگی ‘‘ کے قطعات و نظموں کو ترنم سے پڑھنے کی کوشش کی تو کامیابی ہوئی۔ کہیں اٹکن کا سامنا کرنا نہ پڑا۔ اسے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ’’ زندگی‘‘ میں کی جانے والی شاعری ، شاعری کے ناپ تول میں پورا اترتی ہے۔آپ بھی زندگی ‘‘ کامطالعہ کریں گے تو آپ کو زندگی نئے زاویوں میں ملے گی۔ ایک نئی زندگی آپ کو اپنا ہاتھ تھما رہی ہوگی۔ کبھی آپ کی آنکھیں نم ہونگیں اور کبھی قدم بوجھل اور دل پر سوز۔ زندگی کو پڑھتے پڑھتے جب میری نظر کئی گلدستوں پر پڑی تو ہونٹوں اور آنکھوں میں ایک مسکراہٹ جگمگا اٹھی۔ دل سے فورا ایک آواز آئی۔ تم بھی کہیں زندہ ہو۔
دل کی بات پر دماغ سرشار ہو گیا او ر سرشاری کے ساتھ بیدار بھی، اور فورا تمام وجود کو ایک خوشی کا پیغام ملا۔ ایسا پیغام جس کو میں محسوس تو کرسکتا ہوں پر بیان نہیں کرسکتا۔
’’زندگی‘‘ دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ زندگی پر لکھی گئی تحریروں سے آراستہ ہے ۔جمشید دکھی، شیر باز علی برچہ، فداعلی ایثار، احمد سلیم سلیمی، اعجاز الحق اعجازؔ اور عبداللطیف نے زندگی پر خامہ فرسائی کی ہے اور دوسری حصہ شاکرؔ صاحب کی شاعری پر ۔۔حلقہ ارباب ذوق گلگت اور گلگت کے مختلف بک اسٹالوں پر یہ کتاب دستیاب ہے۔ٹائٹل پر کمال محنت ہوئی ہے تاہم اندرونی سیٹنگ مزین نہیں۔