چترال
جنگل میں بکریاں چرانے کا تنازعہ علاقے میں امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، عمائدین جغور کی تشویش
چترال (بشیر حسین آزاد) چترال شہر کے مضافاتی گاؤں جغور سے ملحقہ جنگل میں بکریاں چرانے کے تنازعے کی پرامن حل کے لئے دونوں پارٹیوں کی مصالحتی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس تنازعے سے علاقے کی امن کو خطرہ لاحق ہونے کی وجہ سے اس کا خاتمہ دونوں کے مفاد میں ہے جوکہ گزشتہ بیس سالوں سے جاری ہے ۔ کمیونٹی اپریزل اینڈ مانیٹرنگ پروگرام (کیمپ) کے نام سے این جی او کے تحت منعقدہ یہ ضلعے میں اپنی نوعیت کا پہلا کانفرنس تھا جس میں دو مخالف گروپ ایک دوسرے کے روبرو مذاکرات کے میز پر بیٹھ کر تنازعے کا پرامن حل ڈھونڈ رہے تھے۔
مقامی ثالث مولانا شیر عزیز، مولانا اسرار الدین الہلال، مغفرت شاہ ، حسین احمد ، حضرت علی شاہ اور دوسروں نے اس موقع پر خطاب کرکے مصالحت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جغور گاؤں کا یہ تنازعہ ایک عرصہ دراز سے کشیدگی کا باعث بنا ہوا تھا جس پر کئی مرتبہ دونوں پارٹی ایک دوسرے کے خلاف صف ارا بھی ہوچکے ہیں۔ جغور گاؤں کے باشندوں نے کہا کہ بکریاں پالنے اور انہیں جنگل میں چرانے کی وجہ سے گاؤں میں سیلاب آنا ایک معمول بن گیا ہے جس سے اب تک ہر سال ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ دوسری طرف ندی کا پانی بھی ناقابل استعمال ہورہا ہے اور یہ جنگل کی تباہی کا بھی باعث بن رہا ہے جس پر مقامی آبادی کا دارومدار بھی ہے۔ دوسری طرف بکری پالنے والوں کا موقف تھا کہ بکریاں پالنے کے سوا ان کا کوئی متبادل ذریعہ معاش نہیں اور نہ ہی ان کے پاس زرعی زمینات ہیں جن کو کاشت کرکے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ اس موقع پر دونوں طرف سے متفقہ طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو کہ ایک درمیانی اور قابل قبول حل پیش کرے گی۔
اس موقع پر میز بان این جی او کیمپ کے مقامی پارٹنر تنظیم کوہ انٹگریٹڈ ڈیویلپمنٹ پروگرام (کے آئی ڈی پی)، چترال انٹگریٹڈ ڈیویلپمنٹ پروگرام (آئی سی ڈی پی) اور لیگل ایڈ فورم کے نمائندے بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات کے حل کے لئے کیمپ تنظیم نے ایک پراجیکٹ کا اجراء کیا ہے جس کے تحت تنازعات کے بنیادی وجوہات کو تلاش کرنے اور ان کو جڑ سے ہی ختم کرنے کی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے جو کہ علاقے میں دیرپا اور پائیدار قیام امن کے لئے بنیادی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جغور میں بکریوں کا مسئلہ بھی ایسے دیرینہ علاقائی مسائل میں سے ایک تھا جو کہ علاقے میں کئی بار میں دونوں گروہوں کے درمیاں مسلح تصادم کا خطرہ پید اکردیا تھا۔