ٖفلسفہ حسینیتؑ اور ہمارا معاشرہ
معرکہ کربلا تاریخ انسانیت اور اسلام کا وہ عظیم معرکہ ہے جہاں نواسہ رسول حضرت امام حسین ؑ نے حق اور باطل کے درمیان واضح لیکر کھنچ کر اسلام اور تاریخ انسانیت
کو روشن کیایہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا میں جب بھی حق اور باطل کے حوالے سے بات ہوتی ہے توحسینتؑ اور یزیدت کا فلسفہ پیش کیا جاتا ہے۔راقم جس طرح دنیاوی سیاست کے حوالے سے قلیل علم رکھتے ہیں بلکل اسی طرح دینی معاملے میں بھی خودکو ایک نامکمل انسان سمجھتا ہوں آج کے اس دور میں دنیاوی معاملات اس کے الجھنوں کی وجہ سے بھی یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ ہمارے اندر کہیں سے بھی ایک فیصد بھی حسینیتؑ کا عنصر پایا جایا ہے ۔ جسکا ذمہ میں معاشرے کو ٹھہرانے کے بجائے اپنی ذات کو سمجھتا ہوں کیونکہ خداوند تعالیٰ نے ہر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بیجا اور انسان کو سیکھنے سکھانے کیلئے عقل عطا کرنے کے ساتھ معاشرتی رہن سہن کا طور طریقے تہذیب اورتمدن سے اگاہ رہنے کیلئے انسان کو علم حاصل کرنے پر زوردیا اور اگر کوئی معاشرہ علم رکھنے کے باجود بھی معاشرے میں بہترتبدیلی لانے کے حوالے سے کوئی مثبت کارنامہ سرانجام دینے میں ناکام رہے تو اس معاشرے کے لوگوں کوجہل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ہم بحیثیت مسلمان اسلام کو ایک مکمل فلسفہ حیات سمجھتے ہیں لیکن جب اسلام میں داخل ہو کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ اس مکمل فلسفہ حیات کی تکمیل اور بقاء کے حوالے سے اسلام کی آمد سے واقعہ کربلا تک کے تاریخ کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اسلام کو کسی اور واقعے نے اتنا متاثرنہیں کیا جیسے واقعہ کربلا نے کیاکیونکہ کربلا کے ہر کردار ایک طرف دین کی بقاء کیلئے جذبہ ایثار سے سرشار تھے تو دوسری طرف لوگ مفاد پرستی کی حوس میں آکردین کی حُرمتکو پامال کر رہے تھے یوں امام عالی مقام ؑ نے بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کرخدا پرستی،حُریت فکر،انسان دوست،مساوات اوراخوت و محبت کا درس دیا۔لیکن یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کرشخصی بادشاہت کے تصور کے تحت قائم کی کی گئی تھی لہذا جمہور مسلمان اس نظام حکومت کواسلامی شریعت پر ایک ضر ب کاری سمجھتے تھے جس کے سبب نواسہ رسول کو اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقاء اور بحالی کیلئے باطل کے مقابل آنا پڑا،یوں راہ حق پر چلنے والوں پر میدان کربلا میں جو گزری،وہ جور وجفا،
بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ لیکن امام عالی مقام نے دین محمدی کی بقاء کیلئے تمام تر ظلم اورجور کے خلاف عملی جدوجہد کرکے بنواُمیہ کے وارث کے منفی پرپگنڈوں کو ہمیشہ کیلئے دفن کرکے رہتی دنیا کیلئے ظالم نظام کے خلاف پرسرپیکار ہونے کا ایک عظیم پیغام دیا۔لیکن جب آج کے معاشرے میں دیکھیں تو ذکر حسینؑ کثرت سے کرنے کے باوجود فکر حسینؑ ابن علی ؑ پر عمل ہوتے کہیں دکھائی نہیں دیتاآج بھی ہمارے معاشرے میں ظالم نظام کو طاقت کے بل بوتے پر قبول کرائے جاتے ہیں آج بھی معاشرے میں اہلبیتؑ اور صحابہ کی عظمت کے نام پر انکے حرمت کی توہین کرتے ہوئے کہیں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے تو کہیں نعرہ تکبیر کی صداوں میں انسانوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں لیکن کسی میں یہ ہمت نہیں ہوتا کہ اس یزیدی فکر کے خلاف صف آراء ہو کر فلسفہ حسینی ؑ کی پرچار کریں۔بدقسمتی سے آج کے مسلمانوں نے حسینیت ؑ کو بھی ایک خاص مکتب فکر تک محد کر رکھی ہے آج بھی حق اور انصاف ،حریت و آذادی اور اعلائے کلمہ حق کیلئے جدوجہد کرنے والے مشکلات میں ہیں جس کے سبب معاشرے میں وہی نظام اجتماعی اور انفرادی طور پر رائج ہے جو یزید نے کوفہ میں رائج کیا تھا۔آج بھی ہمارے معاشرے کو درس کربلا سے سبق لیتے ہوئے فکر حسینی ؑ پر عمل کرتے ہوئے حریت و جرات صبر اور استقلال کے ساتھ معاشرتی ناہمواریوں کو ہموار کرنے کیلئے کرادر ادا کرنے کی ضرورت ہے باطل قوتوں کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے حق اور اصولوں کی بالادستی اور حُریت فکر کے پرچم کو بلند کرنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے مسلمانوں میں ایمان کی کمزوری کے سبب یہ عنصر نظر نہیں آتا بلکہ ہم اگر اپنے معاشرے کی بات کریں تو ایک طرف کربلا والوں کی یاد میں آنسو بہا رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف یہی لوگ مختلف روپ میں فکر یزید کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔آج ہمارے معاشرے میں صاحب ممبر سے لیکراہل مجلس تک اور اہل علم سے لیکر عام آدمی تک کو دکھیں تو فلسفہ کربلا لاگو کرنے کیلئے عملی کوشش کرنے کے بجائے ایک رسمی کربلا کو منا رہے ہوتے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کربلا ایک رسم نہیں بلکہ ایک بزم ہے جہاں سے حق کیلئے جان دینے اور باطل کے خلاف برسرپیکار ہونے کا درس ملتا ہے لیکن ہم نے فکر کربلا کے حوالے سے اپنا فریضہ بھلا دیا اور اپنے ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر کربلا کے واقعے کوچند مولویوں کے حوالے کرکے فلسفہ کربلا کو ایک تجارت کا ذریعہ بنایا ہوا ہے جو ذکر حسین ؑ کو تجارت سمجھ کر دنیاوی شان و شوکت بڑھا رہے ہوتے ہیں جو کہ یقیناً فلسفہ حسینیتؑ کے منافی ہیں۔ اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ کربلا فقط رونے کا نام نہیں بلکہ درس کربلا ظالم اور فکر یزیدیت سے ٹکرا جانے کا درس دیتی ہے تو دوسری طرف سیاسی حلقوں کے ظلم استبداد، غیر عادلانہ نظام، اقرباء پروری اور ناجائز پشت پناہی کی نفی کرنے کا بھی سبق دیتا ہے تو وہیں کربلا ہمیں ثقافتی ،علمی،معاشرتی مسائل سے نکال کروسائل اخروی بھی عطا کرتا ہے ۔فلسفہ کربلا سیاسی ناجائز مفاد پرستوں کے اصلاح کی طرف راغب کرتی ہے یہ فلسفہ کربلا ہی تو ہے جس کی بنیادعلم و عقل اور عقیدہ سلیم ہے اور اسی علم و عقل اور عقیدہ سلیم کی بنیاد پرجب ایک صالح اور سالم ثقافت معاشرے کی روح بن جاتی ہے تو صالح کردار افراد جب سیاست میں آتے ہیں تونظام ہائے معاشرہ و ثقافت میں صالح اقدامات و اعمال نظر آتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسطرح کے رہنما اصول دینے اور انسانی فکر کو فلسفہ حسینیت ؑ کی روشنی میں پروان چڑھانے کیلئے کام کرنے والوں کی کمی ہے ۔لہذا ہمیں معاشرے کی تعصابات سے نکل کر حسینیت ؑ کو سمجھتے ہوئے معاشرے میں حسینی ؑ فکرکو بین المسالک ہم آہنگی کے ساتھ معاشرتی اصلاح کیلئے لاگو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ واقعہ کربلا عشق خدا کا ایسا نمونہ ہے جس پر عمل کرکے معاشرے میں عدل اور انصاف،امن آشتی،پیار محبت اور اخوت بھائی چارگی قائم کر سکتے ہیں۔اللہ ہم سب کو سیرت امام حسین ؑ پر چلتے ہوئے اخلاقی کرادر کے ساتھ اپنے خدماتی کاموں میں اضافہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔