کیا یہ انصاف ہے؟
تحریر: شمشاد علیم
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا
سیاسی لوگ انسداد ھشت گردی ایکٹ کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ئیں حالانکہ گلگت بلتستان میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کا اطلاق ہی نہیں ھوتا ہے۔سانحۃ علی اباد میں ڈی ایس پی بابر اور اس کے گن مین کے خلاف ٖایف ائی ار درج کرائی گئی تھی جن کو ۹۶۱ کے تحت بری کر دیا گیاقاتل کو سزا دینے کی بجایے انعام سے نوازا اور بے گناہ نوجوانوں کو سزاہیں سنانا حیران کن بات ہے۔ان بے گناہ نوجوانوں کے خلاف ایک بھی ازاد گواہ موجود نئیں ہے۔پولیس اہلکاروں کو گواہان کے طور پر پیش کیا گیا جو کہ انصاف کے تقاضے پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ۔ بے ضمیر پولیس اہلکاروں نے جھوٹے بیانات دیکر سیاسی کارکنوں کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور قاتلوں کو اذاد کرانے مٰیں وقتی طور پر کامیاب ہو گئے اور اس جانبدارانہ فیصلہ کو پورے درد رکھنے والے لوگوں نے انصاف کا قتل عام قرار دیدی۔
سانحہ عطااباد کے متاثرین ۸ اگست کو علی اباد کے مقام پر حکومت کی جانب سے اعلان کردہ معاوضہ لینے بینک ائے تھے اس دن مہدی شاہ سرسکار متاثرین کے پر امن احتجاجی ریلی پر فائرنگ کرواکے باپ بیٹے کو قتل کیا۔ مظلوم اور بے گناہ لوگوں کو ریاستی تشدد کا نسانہ بنانا انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ان بے قصوروں نے اپنا حق مانگا تھا مگر ریاستی اہل کاروں حقوق دینے کے بجائے ان کی جان لی، جنہون نے روٹی کپڑا اور مکان کا مطالبہ کیا تھا، ان کو گولی ، کفن اور قبرستان کا راستہ دکھایا گیا، کیا یہ قانوان ہے؟ کیا یہ انصاف ہے؟ یقیناًیہ نا انصافی اور قانون کے خلاف فیصلہ ہے۔ اس بے بنیاد فیصلے پف خاموش رہنا عوام میں شعور کی کمی ہے، کیونکہ نامزد پولیس اہلکاروں کو سزا کے بجائے ترقی دی گئی اور بعد میں با عزت سرکاری نوازشات کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا اور بے قصور سیاسی کارکنون کو عمر قید کی سزا دی گئی۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ سانحہ علی آباد کے مقتولین کو انصاف اور اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
دنیا کے تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہوگا کہ قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے بجائے قانون کی پاسداری کا مطالبہ کرنے والے شہریوں کو جھوٹی گواہی کے ذریعے سزا دیا گیا۔ اگر صورتحال یہ رہا تو کوئی بھی شہری قانون کی بالا دستی اور انصاف کے حصول کے لیے آواز بلند نہیں کر سکیں گے۔ بے قصور سیاسی کارکنوں کے خاندان اپیل کرتے ہیں کہ ان بے قصوروں کو رہا کیا جائے۔
ہر انسا ن کو چاہئیے کہ وہ انسانیت کے ناطے اس نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرے کیونکہ دین اسلام ہمیں مساوات، برابری، انصاف ، عدل اور بھائی چارگی سکھاتی ہے۔
اللہ ہم سب کو ظلم کے خلاف جدو جہد کرنے کی ہمت دے کیونکہ اللہ کے زمین پر فساد کو روکھنا بھی عبادت ہے۔
اپنی پہچان کو نیزوں پہ اچھالے ہوئے لوگ
اور پھر وقت کے موجوں کے حوالے ہوئے لوگ
کس کی میراث ہے اور کس کے حوالے ہوئے لوگ
منصف انصاف پہ آے تو گنہگار ہوئے لوگ
Insaaf kis mangain ya in hukmran se cheen lain….qanoon k andhay honay ka suna tha but qanoon gonga aur behra b ha…..