کالمز

الازہر یونیورسٹی سے قراقرم یونیورسٹی تک

تحریر:بہرام خان شادؔ
تحریر:بہرام خان شادؔ

فاطمی خلافت تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہے جسکا مرکز سرزمین مصر تھی۔ اسی خلافت میں 970ء میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی گئی جو آگے چل کر خلیفہ معز کے دور میں سن 988 ء میں الازہریونیورسٹی بن گئی ۔ یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی اور پرانی یونیورسٹی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلم سائنسدان اور فلاسفر پوری دنیا میں اپنا سکہ جما چکے تھے۔ ابن الہیثم، بو علی سینا، الفرابی ، ابن رشد الکندی، البیرونی، جابر بن حیان اور کئی ایک ہستیاں پیدا ہوئیں کہ جنہوں نے علم کو مشاہدہ اور تجربے کی بنیاد پر پرکھنے کے لئے زور دیااور منطق کو علم کی روح قرار دیا۔کئی ایک مشہور کتابیں لکھیں جن کا اتفادہ اہل یورپ نے اس انداز سے کیا کہ انہوں نے خود کو Dark Age سے نکال کر روشنی کی طرف سفر کا آغاز کیا،تبھی تو اہل یورپ آج خلا میں گھر بنا رہے ہیں لیکن صد افسوس کہ مسلمانوں نے بہت جلد ہی اپنے اسلاف کو قصہء پارینہ بنا دیا جس کی وجہ سے آج مسلمان حالات کے بے ہنگم تھپیڑے کھا رہے ہیں۔جب ہم اپنی تاریخ پر گہری نظر ڈالیں تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اس وقت جتنے بھی مسلمان سائنسدان اور فلاسفر پیدا ہوئے انہوں نے اپنی علم دوستی، تلاش ، غورو فکر ، سادگی، مستقل مزاجی اور اپنی ذات اور مقام کے حدود و قیود سے باہر نکل کر اپنے ارد گرد کی دنیا پر گہری نظر ڈالی تو ابن الہیثم پیدا ہوا، بو علی سینا پیدا ہوا، الفرابی پیدا ہوا، الکندسی پیدا ہوا۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ دولت کی ذخیرہ اندوزی کریں گے اور اس دولت سے بڑے بڑے محلات تعمیر کریں گے،انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ باقی دنیا باڑ میں جائے لیکن اپنی زندگی خوب عیاشی میں گزاریں انہوں نے ہوس اور لالچ کو اپنے زندگیوں پر حاوی کر کے اپنے عقل و شعور کا اندھا نہیں کیا۔ آج جب ہم اپنے اسلاف کی ان روایات کو اپنے اندر تلاش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہیکہ روایات ہم میں زنگ آلود ہو چکی ہیں اور اس کے بر عکس ہم میں کوئی روایت باقی ہے تو وہ نفسا نفسی کی روایت ہے۔ آج ہماری حالت یہ رہی ہے کہ ہر بندہ اپنی ذات اور مقام کے حدود و قیود میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ اسے اپنی ذات کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی۔آج ہر فرد کی یہ کوشش ہے کہ دولت کے حصول کو کس طرح ممکن بنایا جائے چاہے نا جائز طریقے سے ہی کیوں نہ ہو۔آج آپ اپنے درمیان بہت سے لوگوں کو اسطرح کہتے ہوئے سن پائیں گے کہ میرے لئے نوکری کا کوئی مسئلہ نہیں کہ میرے والد صاحب کے فلاں آفیسر کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اس نے یقین دلایا ہے کہ میری نوکری پکا کرا دیں گے۔ آج ہماری حالت یہ رہی ہے کہ ہمارے سیاستدان دوران الیکشن پیسے پھینک کر تماشا دیکھتے ہیں۔بس مت پوچھئے آج ہماری روایات سفارش ، لالچ ، حرام خوری ، انا پرستی ، دشمنی ، فرقہ واریت ، ذات پرست ، روایت پرست ، تعصب پرست، اور نجانے کس کس گھناؤنی روایات کو اپنی زندگی کا محور بنا دی ہے جس کی وجہ سے نہ تو ابن الہیثم پیدا ہو رہا ہے نہ الکندی پیدا ہو رہا ہے نہ بو علی سینا پیدا ہو رہا ہے نہ ابن رشد پیدا ہو رہا ہے نہ جابر بن حیان پیدا ہو رہا ہے نہ انقرابی پیدا ہو رہا ہے اور نہ الکرمانی پیدا ہو رہا ہے بس مت پوچھئے اگر کوئی پیدا ہو رہا ہے تو صرف اور صرف آدمی پیدا ہو رہا ہے۔ تبھی تو علامہ اقبال نے فرمایا۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث میں پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا

الاظہر یونیورسٹی کے قیام کے ٹھیک ایک ہزار چھبیس سال(1026 ) بعد قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کا قیام سن 2002ء میں عمل میں آیا۔قراقر م یونیورسٹی کی حیثیت گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ ایسی ہے جیسے کسی طاق میں رکھی ہوئی شمع جس کی روشنی آہستہ آہستہ محل کے دروازے تک پہنچنے کے لئے ابھی ابھی طاق کو اپنی روشنی سے منور کر دیا ہو۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ بذات خود کچھ حیثیت نہیں رکھتا ہے جبکہ تمام دارومدار اس ادارے کے اندر پڑھنے والے طلباء پر ہے کہ وہ اپنی خوشبو سے اپنے مادر علمی کو کس طرح معطر کریں گے۔قراقرم یونیورسٹی گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے ، تمام طلباء جو ا س ادارے سے منسلک ہیں سب کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی محنت، شوق، کردار اور لگن سے اپنے اس مقدس ادارے کا نام کس طرح روشن کریں گے۔ قراقر یونیورسٹی بنتے ابھی بارہ سال مکمل ہو گئے جو کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کو اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے بہت قلیل ہے اور یہ عہد طفلی کا آغاز ہوتا ہے جس نے آگے جا کے لمبی عمر گزارنی ہے۔ ان بارہ سالوں میں یونیورسٹی کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو کئی مہینوں تک بند رکھنی پڑی اور طلباء کی تعلیمی سرگرمیاں بہت متاثر ہوئیں جو کہ ہم سب کے لئے سوچنے کا مقام ہے ۔ ایک تعلیمی ادارے کے اندرایک طالب علم اگر صحیح معنوں میں طالب علم ہی رہے تو یہ اس ادارے کے حق میں بھی بہتر ہے اور اس طالب علم کے حق میں بھی، ہاں دوران طالب علمی میں ایک طالب علم کو سیاسیات اور مذہبی معاملات کے بارے میں جانکاری حاصل کرنی چاہئے لیکن مطالعہ ، کرداراور فلسفہ کے ذریعے ان چیزوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرے نہ کہ سیاسی اور مذہبی غنڈہ بن کرجو کہ خود طالب علم کے لئے بھی اور اس ادارے کے لئے بھی زہر ہلاہل ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کے اندر ایک غیر تعلیمی ماحول پیدا ہوگاجو کہ ہم سب کے لئے نقصان دہ ہے۔ میں یونیورسٹی میں آنے والے تمام طلباء سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ کوئی انسان برا نہیں ہے اور اگر کوئی برا ہے تو وہ انسان کی منفی سوچ ہے جو اسے برا بنا دیتی ہے۔یونیورسٹی کیمپس میں اتحاد و اتفاق سے رہیں افواہیں نہ پھیلائیںآپس میں پل تعمیر کریں نہ کہ گروپ بندی جو محاذ آرائی کو جنم دیتی ہے جو آگے چل کر نفرت و دشمنی میں بدل جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے ہی جیسے انسان سے خوف کھاتا ہے ہٹ دھرمی جاہلوں کا کام ہے اور صلح و سمجھوتہ اہل عقل کا کام ہے ۔ لہٰذا قراقر م یونیورسٹی کو صرف اور صرف علم کا گہوارہ بنایا جائے جہاں منطق ہو ، علمی دلیل ہو، مشاہدہ ہو، تجربہ ہو، ۔ یہی وہ روایات ہیں جنہیں اپنا کر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اگر فساد اوردشمنی کو اپناشعار بنایا تو سمجھ لینا کہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔۔

 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button