محروم ہیں یا دھوکہ ہوا ہے؟
گلگت بلتستان حکومت اور اسمبلی کی مدت ملازمت ختم ہونے میں صرف ایک مہنے کا وقت باقی ہے( یاد رہے کی اس سطر میں ملازمت کا لفظ جان بوجھ کر لکھا گیا ہے تاکہ سند رہے)۔ مگر تاحال گورننس آرڈر میں ترمیم کے حوالے سے کوئی پیش رفت بظاہر نظر نہیں آرہی ہے۔ایسا لگتا ہے کی آخری وقت میں شور شرابہ ہوگا اور جلد بازی میں کانا ڈویژن کے بابو حضرات وہی غلطی دہرائیں گے جو گزشتہ 67سالوں سے دہرائی جا رہی ہے۔یہ دراصل ٹائپنگ والی غلطی نہیں ہوتی ہے اس غلطی کے پیچھے بڑا شاطر دماغ کام کر رہا ہوتاہے۔ مگر ہمیں ہر دفعہ بتایا جاتا ہے کہ یہغلطی تو پیکیج تیار کرنے والوں سے غیر ارادی طور پرسرزد ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان کو ملنے والے ہر اصلاحاتی پیکیج میں جان بوجھ کر ایک ادھ غلطی نمایاں طور پر رکھی جاتی ہے تاکہ اگلی دفعہ بیوقوف بناتے وقت پرانی غلطیوں کی مرہم پٹی کرکے یہ بتایا جاسکے کہ دیکھو ہم نے آپ پر بڑی مہر بانی کی ہے کیونکہ اس دفعہ پیکیج میں وہ مسالہ ڈالا ہے جس سے پچھلی دفعہ آپ لوگ محرم تھے اور ہم پر بھروسہ رکھو ،نوازنے کا یہ عمل قیامت تک جاری وساری رہے گا اور بچارے عوام اس پر خوش ہو کر شادیانے بجاتے ہیں اور سسٹم سے فائدہ اٹھانے والا مخصوص طبقہ ایسے ہر پیکیج کو تاریخ ساز قرار دیتے پھرتا ہے۔
کسی مائی کے لال کو آج تک یہ پوچھنے کی جرات نہیں ہوئی کہ قوموں کو حقوق قسطوں میں نہیں ملا کرتے ہیں ۔ جب گورننس آرڈر تیار ہو رہا تھا تو اس وقت یہ بات واضع کیوں نہیں کی گئی کہ ایک حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد نئے انتخابات کس سیٹ اپ کے تحت ہونگے ؟نگران حکومت ہوگی یا پرانا وزیر اعلیٰ نئے انتخابات کی نگرانی کرے گا؟ اور سب سے بڑھ کر اس آرڈر میں ترمیم کا اختیا ر یہاں کی منتخب اسمبلی کو کیوں نہیں دیا گیا؟ جس سے آج یہ خجل کھواری نہیں ہوتی اور اسلام آباد کی منتیں کرنے کی بجائے یہاں ہی گورننس آرڈر کی غلطیاں درست کی جاتیں۔کیا یہاں کے عوام کے منتخب نمائندے اتنے قابل بھروسہ نہیں کہ ان کو اپنے نظام کے اندر ترمیم کا حق دیا جائے؟ اس کالم کے آغاز میں قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے اراکین اور حکومت کو اسلام آباد کے ملازمین اس لئے کہا گیاکیونکہ یہ لوگ گزشتہ پانچ سالوں میں اپنا یہ حق چھننے کی بجائے اسلام آباد کے حکمرانوں کے ملازمین کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور ان کے حق میں قراردادیں منظور کرتے رہے ہیں۔اب جب اقتدار کے ختم ہونے کا وقت قریب آیا ہے تو مہدی شاہ صاحب کو بھی گلگت بلتستان کے حقوق کے معاملے میں بڑی تکلیف ہو رہی ہے ۔ ان سے کوئی پوچھے جناب اس وقت آپ کیا کررہے تھے جب زرداری ایوان صدر میں بیٹھا تھا؟ تب تو آپ نے ان کی تعریفوں کے پل باندھنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔
شنید ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے سفارشات مرتب کر رہی ہے جس میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی دی گئی تجاویز بھی شامل ہونگی مگر یہ طے نہیں ہے کہ ان سفارشات پر عملدرآمد ہوگا یا نہیں؟سینیٹر فرحت اللہ بابر جو کہ اس کمیٹی کے رکن بھی ہیں نے گزشتہ دنوں ہماری دعوت پر ایچ آر سی پی کی گلگت بلتستان کے حوالے سے شائع شدہ رپورٹ کی تقریب رونمائی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگ محروم نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ اسلام آباد کی بیو رو کریسی نے دھوکہ کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس دفعہ بیورو کریسی نے بھی ہم سے اتفاق کیا ہے کہ گلگت بلتستان کی محرومیوں کا بیک جنبش ازالہ کیا جائے۔اس نشست میں شریک گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے یہ مطالبہ کیا کہ جس طرح جنرل مشرف نے بنگلہ دیشیوں سے اور زرداری نے بلوچیوں سے معافی مانگی تھی اسی طرح 67 سال محروم رکھنے پر حکمران گلگت بلتستان کے عوام سے معافی مانگے۔ حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دفعہ الیکشن سے قبل گلگت بلتستان کے سیاسی نظام میں پھر کوئی تبدیلی لائی جارہی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دفعہ پھر کوئی ڈرامہ کیا جارہا ہے یا واقعی میں اصل محرومیوں کا ازلالہ کیا جارہا ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں کسی بڑی تبدیلی کی امید رکھنا خود کو دھوکے میں رکھنے کے سواکچھ نظر نہیں آتا ہے۔ کیونکہ جب تک گلگت بلتستان کے لئے تیار ہونے والا نظام گلگت بلتستان میں ہی تیار نہیں کیا جاتا اس سے خیر کی امید کم رکھنی چاہئے کیونکہ جی بی کے حوالے سے اسلام آباد میں مقیم کانا ڈویژن کے بابو اپنی روایتی حرکات سے باز نہیں آئیں گے۔ وہ گلگت بلتستان کے عوام کو اکیسویں صدی میں بھی بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ جبکہ ادھر ہماری بھولی بھالی سیاسی قیادت اسمبلی سکریٹریٹ سے ملنے والی اپنی تنخواہوں سے زیادہ آگے سوچنے کو گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔