سکردو میں آج بھی چوری کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا ……!!
ہماری تاریخ بہت اچھی ہے….اس لئے کہ یہ ہمیشہ ہمارے حق میں بولتی ہے اور ہمارے دشمنوں کی عزت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتی ہے….آج بھی ہم ایسی ہی تاریخ رقم کر رہے ہیں …کھیل کے میدان سے لے کر مذہب کے میدان تک ہر جگہ یہی صورت حال ہے….یہ باتیں اس لئے ذہن میں گردش کر رہی تھیں کہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے منسوب ایک بیان کا بڑا چرچا کیاجارہا ہے، جس میں صاحب موصوف نے کہا تھا ’’سکردو میں کبھی گھروں کو تالا نہیں لگا…وہاں کبھی چوری نہیں ہوئی‘‘۔ میں نے اس پر کچھ کہا تو ہمارے ایک دوست نے اطلاع دی کہ جناب اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ باتیں عمران خان نے کی ہیں۔ کچھ اور دشمن نما دوستوں نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا کہ عمران خان کی ان باتوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا آپ صحافیوں کی ذمہ داری ہے۔ پھر خود ہی ’’باریک بینی‘‘ سے جائزہ بھی پیش کرنے لگے۔ کہنے لگے گھروں کو تالا نہ لگانے والی بات تو ٹھیک ہے کیونکہ ہمارے لوگ جب گھر کے اندر ہوتے ہیں تو پھر دروازے کو باہر سے تالا نہیں لگاتے….ہاہاہا (خود ہی تبصرہ کر کے خود ہی ہنسے جا رہے تھے) ، کہنے لگے چوری کے واقعات کے نہ ہونے والی بات تو سراسر غلط ہے کیونکہ کل ہی میرا دل چوری ہو گیا تھا…دوسرے نے بات کاٹنے ہوئے کہا ارے ہاں میری دوست نے مجھ سے نظریں بھی تو چرائی تھیں…ہاہاہا …..لو جی چوری کے دو اہم واقعات تو یہیں ثابت ہو گئے..
عمران خان کی ان باتوں سے مجھے چند سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے…ملک کے بہت بڑے کالم نگار کو سکردو میں ایک تقریب سے خطاب کرنا تھا اور اس کے انتظامات ہم کر رہے تھے۔ تقریب سے پہلے ان سے گفتگو ہو رہی تھی، انہوں نے ہم سے مخاطب ہو کے کہا کہ’’ آپ لوگ بڑے خو ش نصیب ہیں ، بہت اچھے علاقے میں رہ رہے ہیں۔‘‘ ہم سمجھے کہ سکردو کے قدرتی حسن کی بات ہو رہی ہے ۔ پھر کہنے لگے’’ مجھے یہ جان کر نہ صرف خوشی بلکہ حیرت بھی ہوئی کہ یہاں آج بھی قتل کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا، یہاں لوگ دکانوں کو کھلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں مگر چوری نہیں ہوتی……‘‘وہ بولتے جا رہے تھے اور ہم ایک دوسرے کی طرف عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا ، ان کو کیسی غلط پٹیاں پڑھائی گئی ہیں ، بتا دینا چاہئے کہ یہ سب غلط ہے…شاید میں یا کوئی اور دوست یہ بات بتا بھی دیتا مگر اسی اثنا میں کچھ اور لوگ کمرے میں داخل ہوئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ مجھے اس وقت بڑی شرمندگی محسوس ہوئی جب ان صاحب نے یہ باتیں اپنی تقریر میں بھی کہہ ڈالیں…..اسی تناظر میں اگر ہم عمران خان سے منسوب باتوں کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم نے مجموعی طور پر جھوٹ بولنے کو گناہ تصور کرنا چھوڑ دیا ہے یا پھر یہ کہ اپنی خامیوں کو جھوٹ بول کے چھپانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے بہت سارے لوگ ملیں گے جو انتہائی دھڑلے سے جھوٹ بولیں گے اس بات سے لا علم ہو کر کہ جس کو یہ باتیں سنائی جا رہی ہیں وہ حال ہی میں لٹ گیا ہے، چوروں نے اس کے گھر کی صفائی کر دی ہے….
صرف تھانہ سکردو کے اعداد و شمار دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ سال 2014ء میں یعنی پچھلے 10ماہ کے دوران چوری/ ڈکیتی کے (20) واقعات کی رپورٹ ہوئے۔ سال 2013ء میں (51)، سال 2012ء میں(53)، سال 2011ء میں(46) اور سال 2010ء میں(61) واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ اقدام قتل جیسے سنگین جرم کے سال 2014ء میں (8)،2013ء میں (4)،2012ء میں (5)، 2011ء میں (3) اور 2010ء میں (3) واقعات رپورٹ ہوئے۔یہ اعداد و شمار صرف ایک تھانہ کے ہیں، ان کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہمارے ہاں گھروں ، محلوں میں ہونے والے کتنے واقعات تھانہ میں رپورٹ ہوتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ 10فیصد! شاید یہ اندازہ بھی ہم نے کچھ زیادہ ہی لگایاہے، لا تعداد واقعات کسی کے علم میں نہیں آتے، لاتعداد واقعات کو ابتدائی سطح پر نمٹا دیا جاتا ہے، لاتعداد واقعات میں متاثرہ شخص کسی خوف کے تحت خاموشی اختیار کرتا ہے، لاتعداد واقعات بزرگوں (علماء) کی مداخلت کے باعث دبا دئیے جاتے ہیں، لا تعداد واقعات کو سیاسی شخصیات انٹری مار کربے معنی بنا دیتی ہیں، لا تعدا واقعات میں چور کا کسی صحافی ،پولیس آفیسر یا کسی اور ’’معتبر شخصیت ‘‘سے تعلق نکل آتا ہے اور اس کو اچھالا نہیں جاتا وغیرہ وغیرہ…..معروف صحافی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن وزیر مظفر حسین کا کہنا ہے کہ چوری کے 70فیصد واقعات تھانوں میں رپورٹ نہیں ہوتے، لوگ یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتے ہیں کہ یہ معاملہ ہم اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔
معلوم نہیں ہم کب تک اپنے آپ کو سچا(اچھا) ثابت کرنے کیلئے اسی طرح جھوٹ کا سہارا لیتے رہیں گے….؟؟؟چوری چکاری، دھنگا مشتی، غنڈہ گردی، ڈاکہ زنی سمیت تمام ’’اچھائیاں‘‘ جو بڑے شہروں میں ہیں وہ ہمارے ہاں بھی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے شہروں والے اس بات کو مانتے ہیں ہم نہیں مانتے، مشترک یہ ہے کہ وہ بھی سدھارنے کی کوشش نہیں کرتے ہم بھی نہیں کرتے….اور عجیب بات یہ ہے کہ ان تمام معاملات کے باوجود ہم اچھے مسلمان بھی ہیں، سچے پاکستانی بھی ہیں اور پر خلوص انسان بھی…
مبارک حیدر اپنی کتاب ’’مغالطے ، مبالغے‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ دینی علماء کا دعویٰ ہے کہ ہم اس لئے مسائل میں گھر گئے ہیں کیونکہ ہم نے اسلام کو چھوڑ دیا، ہمارے علماء کی ایک خصوصیت ان کی ثابت قدمی ہے یعنی یہ ایک ہزار برس کے دوران اپنے خیالات سے ایک انچ نہیں ہلے۔ جب 1256ء میں ہالاکو نے بغداد کو تاراج کیا تو ہمارے دینی علماء نے تب بھی یہی کہا تھا کہ ہماری شکست کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو چھوڑ دیا۔ معلوم نہیں ہم نے اسلام کو کب پکڑا اور کب چھوڑ دیا لیکن یہ طے ہے کہ ہمارے علماء کی فضیلت میں کمی نہیں آئی۔ اس کے برعکس احیائے اسلام اور دعوت اسلامی کی تحریکوں کا دعویٰ ہے کہ ہر سال چھ لاکھ سے زائد طلباء اسلامی درسگاہوں یعنی مدرسوں سے فارغ التحصیل ہو کر معاشرے میں اچھائی کی ترویج اور برائی کے سدباب کیلئے مصروف ہو جاتے ہیں جبکہ مختلف دینی اجتماعات میں سالانہ پچاس لاکھ سے زائد افراد دینی تربیت سے گزرتے ہیں۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں دین کے چرچے ہیں، اسلامی شریعت اور سنت رسول ؐ کی ترویج کیلئے طاقتور تحریکیں چلی ہوئی ہیں۔ ‘‘ ذرا آگے چل کر انہوں نے مزید لکھا ہے ’’کیا یہ پوچھنا جائز نہیں کہ اس سارے دینی ابھار اور اتھارٹی کے باوجود اور معاشرے میں گیارہ کروڑ کے قریب افراد کے دین سے اعلانیہ وابستہ ہونے کے باوجود معاشرہ کے تمام معاملات میں انحطاط کا اضافہ اور بڑھتی ہوئی لاقانونیت کی آخر کیا وضاحت ہے؟‘‘
مبارک حیدر صاحب کے سوال کا جواب تو میں نہیں دے سکتا یا پھر دینا نہیں چاہتا مگر ہمارے ’’دینی طلبا‘‘ جو اپنے آپ کو عام طو پر ’’علماء‘‘ کہلانا پسند کرتے ہیں ان کے پاس یقیناًان سوالات کے جواب ہونگے۔عمران خان کے بیان سے ملتا جلتا ایک بیان محترم شیخ محمد حسن جعفری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، سوشل میڈیا پر انہی کے نام سے بنائے ہوئے ایک پیج پر ان کا بیان پوسٹ کر دیا گیا ہے جس کے مطابق بلتستان میں کرائم ریٹ زیرو فیصد اور تعلیمی شرح 80فیصد ہے۔ اس بیان پر لوگوں نے ملا جلا رد عمل کا اظہار کیا مگر جن لوگوں نے مخالفت میں باتیں کی ہیں ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اب لوگ آنکھیں بند کر کے کسی بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کسی نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ بیان شیخ صاحب سے غلط منسوب کیا گیا ہے کیونکہ ان کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے بلا تحقیق ایسی بات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
مذہبی اعتبار سے ہمارا معیار بلند ہو رہا ہے یا پست ، اس کا اندازہ گذشتہ روز عاشورہ کے جلوس میں ہو رہا تھا ….. اب عاشورہ کے جلوسوں میں لبیک یا حسین ؑ کی جگہ ’’گو نواز گو‘‘ جیسے نعرے رائج کرائے جانے لگے ہیں …اس پر تبصرہ کرونگا تو یہ سارا ’’اسلامی معاشرہ‘‘ جذباتی ہو جائے گاچنانچہ بات کو طول دینے کی بجائے یہ کہوں گا کہ ہم(اہالیاں سکردو) عمران خان صاحب کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ہمیں بتا دیا کہ آج بھی سکردو میں گھروں کو تالے لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور آج بھی سکردو میں چوری کا کوئی واقعہ نہیں ہوتا….ورنہ ہم تو تھانہ سکردو کے ریکارڈ کو سچ مان رہے تھے…شکر ہے ہماری غلط فہمی دور ہو گئی…. ہمیں اب یہ یقین ہو گیا ہے کہ اسلام ہماری رگ رگ میں بسا ہوا ہے، ہمارے ہاں امن کا دور دورا ہے، چوری سے لوگ واقف ہی نہیں، قتل کے تو لفظ سے ہم آشنا نہیں،ہمیں اپنے حصے کے سارے حقوق حاصل ہیں چنانچہ کبھی کبھی ہم دوسروں کے حقوق کیلئے بھی آواز بلند کرتے ہیں…!!!!
سچ تو یہ ہے کہ سچ کہا نہ گیا
جھوٹ یہ ہے کہ یہ بھی جھوٹ نہیں