کالمز

گولڈن کا گولڈن اقدام

تحریر ۔محمد علی انجم

علی کاظم کی شکل گولڈن نہیں ، لیکن انہیں اکثر گولڈن کے پکاراجا تا ہے اور وہ اسی نام سے ہی جانا جاتا ہے ، معلوم نہیں ان کایہ نام کیسے پڑ گیا ،اور کس نے ان کا یہ نام رکھا ہے ، خیر اس بحث میں پڑھنے کی ضرورت نہیں لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ جب ان سے ہماری پہلی ملاقات کسی اسٹیج ڈرامے کے دوران ہوئی تب انہوں نے گولڈن کپڑے ضرور پہنچے ہوئے تھے ،لیکن چہرہ ان کا بالکل سفید تھا ، دل چاہ ان سے سوال کیا جائے کہ جناب آپ تو کہیں سے گولڈن نہیں لگتے آخر کون تھا جس نے آپکو گولڈن کا خطاب دیا ہے ، لیکن یہ سوال پوچھنے کی ہمت شاہد اس لیے ہم نہیں کر سکے ، چونکہ پہلی ملاقات تھی ، پہلی ملاقات میں اتنا کچھ پوچھ لینا شاہد میرے لیے ممکن نہیں تھا ، گو کہ ڈرامے کے فورا بعد ہماری ملاقات ہوئی تھی ، وہ فل ڈریس میں تھے اور ان کے ہاتھوں میں ایک عدد تلوار بھی تھی من میں خیال آیا کہ ایسے میں ہم ان سے پوچھ لیں تو شاہد وہ تلوار ہمارے سر پر مار نہ دیں ، دل میں یہ سوال بار ہا کھٹکتا رہا ، ایک مدت بعد ان سے ہمارا تعلق آشنائی سے کچھ ذیادہ بڑھ گیا ، اور وہ ہمارے گہرے دوست ہو گئے ، ہوا یوں کہ ایک دن ہماری ملاقات ایف ایم ۹۹کے کسی پروگرام میں ہوئی ، ہم ساتھ پروگرام کر رہے تھے ، تب ہم نے از راہ مذاق جناب سے پوچھ ہی لیا حضور آپ گولڈن کب ہوئے ، تب جو انہوں نے کہا جو جواب دیا وہ بالکل خلاف توقع تھا جناب نے کہا کہ میرا سر بہت چھوٹا ہے لوگ اس لیے مجھے گولڈن کہتے ہیں ، ان کے جواب کے بعد ہی میں مشاہدہ کیا کہ واقعی ان کا سر کافی چھوٹا ہے ، اتنے عرصے ساتھ رہنے کے باوجود بھی ہم نے کبھی ان کے سر پر غور نہیں کیا تھا ، علی کاظم کا سر چھوٹا ضرور ہے لیکن اس سر کے اندر موجود دماغ کافی بڑا ہے ، بلتستان کے بڑے فن کاروں میں ان کا شمار ہو تا ہے ، فن کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، فن کاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری اور ہدایتکاری کا شوق بھی رکھتے ہیں اور ان دونوں شعبوں میں کمال مہارت بھی رکھتے ہیں ، گزشتہ دنو ں علی کاظم نے ایک مہم شروع کی اور ان کی اس مہم کا مجھے ذاتی طور پر فیس بک کے زریعے معلوم ہوا ، جناب نے فیصلہ کیا کہ اس با ر وہ رمضان کے دوران تما م مکاتب فکر کی مساجد میں باری باری جمعے کی نماز ادا کریں ، ایک فن کار سے یقیناًایسے کی اقدام کی توقع تھی فن کار یقیناًمعاشرے کا آئینہ ہیں فن کار ہی معاشرے میں ہم آہنگی اور محبت کے فروغ کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں ، علی کے ساتھ ان کے دوستوں نے بھی اس مہم میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ، جن میں نثار کھسمن ، فد ا حسین کارٹون عبد النان ڈار حبیب شگری ، اور دیگر احباب شامل تھے ، پہلے مرحلے میں علی کاظم اور ان کے احباب نے امامیہ مسجد سکردو میں نماز ادا کی اس دوران علی کاظم کے ساتھ اہل سنت ، اہل الحدیث اور نوربخشہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اور فن کار بھی ہمراہ تھے ، علی کے اس اقدا م کو عوامی سطح پر سراہا گیا ، جبکہ دوسرے مرحلے میں علی اور ان کی ٹیم نے مرکز اہل سنت کا رخ کیا اور وہاں نماز ادا کی ، ان کی یہ مہم ابھی جاری ہے اور اس مہم کو عوامی سطح پر بڑی پذائرئی مل رہی ہے ، علی کاظم کا یہ اقدام یقیناًقابل ستائش ہے ، ان کا یہ اقدام محبت کے فروغ میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ، موجودہ دور کو نفسانفسی کا دور کہا جاتا ہے ہر فرد کو اپنی لگی ہوئی ، ہر شخص بس اپنی ذات تک محددو ہو کر رہ گیا ، اس پوری دینا میں اسب سے اہم اپنا آپ ہی لگتا ہے ، بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کی دینا سوچنے والوں کی دینا سے تھوڑی سی مختلف ہوتی ہے ،وہ صرف سوچتے نہیں بلکہ معاشرے کے لیے جو بہتر ہوتا

ہے اُسے کرنے میں کبھی دیر نہیں کرتے ، ہمیں آ ج کل لوگ کیسے ہیں کس حال میں ہیں کون کیا کر رہا ہے ، کون کیا سو چ رہا ہے ، کون کہاں کیا کھا رہا ہے ، یہ سب کچھ فیس بک کے زریعے ہی معلوم پڑتا ہے ، لوگوں کی نیکیاں اور احسن اقدامات عملی دینا میں بہت کم اور فیس بک پر بہت ذیادہ نظر آتے ہیں ، فیس بک پر ہر کوئی سماجی سوچ سے ہم آہنگ ، سماجی خدمات سے شر شار ، متحرک سماجی رہنماء لگتا ہے لیکن عملی میدان میں یہ لوگ کہیں نظر نہیں آتے ، فیس بک پر خود کو مفکر کہلانے والے لوگ عملی دینا میں یا تو سماج سے بالکل بے فکر ہیں ، یا پھر ان کی سرگرمیاں بند کمروں تک محددو ہیں ، وہ تصویروں اور مختلف پوسٹوں پر برملا خیالات کا اظہار تو کرتے دیکھائی دیتے ہیں ، لیکن عملی میدان میں جب ان سے کسی سماجی معاملے میں مدد کی اپیل کی جاتی ہے تو پہچانے سے انکار کر دیتے ہیں ،المیہ تو یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو فیس بک پر کسی کی نیکی بھی نظر آتی ہے تو انہیں ہضم بالکل نہیں ہوتا ، انہیں ان کے نیک کام میں بھی بہت ساری غلطیاں نظر آتی ہیں ،گویا تنقید کرنا ان کے لیے واجب امر ہے ، وہ فیس بک جیسے سماجی رابطوں اور صرف تفریح کی غرض سے بنایا گیا تھا ، ہم نہ جانے اُس کا استعمال کن کن مقاصد کے لیے کر رہے ہیں ، گو کہ بلتستان کا مثالی امن یہاں کے پرامن ، پرخلوص علماء اور سماجی طور پر متحرک افراد کی مرہون منت ہے ، تاہم اس پرامن فضا کو برقرار رکھنے کے لیے عملی کوششیں کرنا ہماری بھی زمہ داری ہے ،مجھے یاد میں ماضی میں بھی جب گلگت کے حالات انتہائی کشیدہ تھے تب علی کاظم فن کاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے آگے آئے تھے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ امن کے قیام کے لیے گلگت کی طرف امن مارچ کریں گے ،رمضان کا بابرکت مہینہ جو ہمیں عملی طور پر محبت اور امن کا درس دیتا ہے ، اس مہینے میں علی کاظم اور ان کی ٹیم نے محبت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے جو اقدامات اُٹھایے ہیں وہ یقیناًنہایت ہی قابل تحسین ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب بھی اس مہم میں علی کاظم کا ساتھ دیں ، اور اس مثالی امن اور بھائی چارگی کو مزید فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں ، میرا سلام ہے ان فن کاروں پر ۔۔۔ جو معاشرتی شعور کی دولت سے مالا مال ہیں ، ۔۔۔۔ لوگ علی کاظم کا سر چھوٹا ہونے کے باعث انہیں گولڈن کہتے ہیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن مجھے ان کے چھوٹے سر سے کوئی سروکار نہیں ، مجھے ان کے بڑے دل اور ایک پیارے اور محبت کرنے والے دل سے غرض ہے جو ہمیشہ اپنے علاقے کے لیے بے چین رہتا ہے ۔ ۔۔۔۔ علی کاظم کے اس اقدام نے حقیقی معنوں میں ثابت کر دیا کہ وہ واقعی میں گولڈن ہیں ۔۔۔۔۔ علی کاظم کی ٹیم میں شامل نامور صدا کار ، اور فن کار نثار کھسمن ، عبد المنان ڈار ، حبیب شگری اور دیگر فن کاروں کو اس احسن اقدام کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اور داد و تحسین ۔۔۔۔

ہم سب ایک ہیں

منزل سب کی ایک ہے

راستہ سب کا ایک ہے

پھر کیوں ہم الجھے ہوئے ہیں

ایک دوسرے سے ۔۔۔

چلو الجھنیں مٹاتے ہیں

پھر سے ایک ہوتے ہیں ۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button