کالمز

لمحہ فکریہ !

حمیرا یاسمین
ایسو سی ایٹ پروفیسر 

کرہ ارض پر جب کسی نئی ریاست کا ظہور عمل میں آتا ہے تو اس ریاست میں نظام کو صحیح خطوط پر چلانے کے لیے ایک مظبوط اور دانا حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے حکومت کی جب تشکیل نو کی جاتی ہے تو مختلف لوگوں کو حکومتی امور چلانے کے لیے مختلف ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں ان ذمہ داریوں کو صحیح اور موثر طور پر چلانے کے لیے مختلف محکموں میں تنظیم سازی کی اجتی ہے جس کے بعد محکمہ اپنے طور پر ملک کے انتظامات کی باگ ڈور سنبھال لیتا ہے اور مختلف امور کو فعال بنانے کے لیے دیانت دار اور محنتی افراد کا چناؤ ان کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے ۔ جس کے لیے وہ ہر طرح کے وسائل بروئے کار لاتا ہے تاکہ اس ریاست کے تمام شہری پر سکون اور آرام دہ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں ۔ ایک کامیاب ریاست کی بنیاد جن ستونوں پر رکھی جاتی ہے ان میں عدلیہ، انتظامیہ اور قصننہ شامل ہیں ۔ تینوں ادارے کہنے کو تو باکل الگ محکمے ہیں لیکن ان اداروں کے بیرونی اور خارجہ امور ایک دوسرے سے براہ راست منسلک ہوتے ہیں ۔ قصننہ قانون سازی کرتی ہے تو عدلیہ ان قوانین پر عمل در آمد پیرا ہو کر عدل و انصاف کا کام کرتی ہے اور انتظامیہ قومی امور کو احسن طریقے سے بجا لانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ریاست کے انہی اداروں کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے جان و مال کی تحفظ کی پوری ذمہ داری لیں تاکہ شہری اپنے فرائض بخوبی اور پر سکون ماحول میں سر انجام دیں۔ 

شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری براہ راست حکومت وقت پر بھی عائد ہوتی ہے جن کی واضح مثالیں ہمیں خلفاء راشدین کے دور میں نظر آتی ہیں اور انہی مثالوں کی پابندی ایک اسلامی مملکت میں بھی ہونا چاہیئے ۔ لیکن اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو یہ گنگا ہمیں بالکل الٹی بہتی نظر آرہی ہے۔ ہماری حکومت اسلامی سزاؤں پر عمل درآمد کروانے کو ظالمانہ رویہ کہتی ہے حالانکہ انہی سزاؤں پر عمل ایران اور سعودی عرب کی حکومتیں بھی کرتی ہیں ۔ اسی وجہ سے سعودی عرب میں جرائم کی شرح دنیا کے تمام ممالک سے سب سے کم ہے ۔ ہمارے ملک کا کوئی شہر ، گاؤں اور قصبہ ایسا نہیں ہے جس کو ہم ایک مثالی ریاست تصور کر سکیں ملک کے تمام حصوں میں چوری، ڈاکہ زنی ، رشوت ، سمگلنگ ، جھوٹ غرض ہر قسم کی برائیاں عام ہیں ۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ہم اپنی نئی نسل کو کس قسم کی تعلیم اور ماحول دے رہے ہیں یا یہ کہ ہماری اگلی نسل کس قسم کی تیار ہو رہی ہے کیا ہم ان سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ملکی باگ ڈور احسن طریقے سے انجام دے سکیں ۔ 

کچھ عرصے پہلے تک گلگت بلتستان کا علاقہ ایک پر امن اور مثالی علاقہ تصور کیا جاتا تھا جہاں پرمذکورہ بالا برائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ لیکن یہاں کی انتظامیہ کے لیے گلگت بلتستان کے حالات ایک گھمبیر مسئلے کی طرح ہاتھوں سے نکلتے ہی جا رہے ہیں ۔ ان میں اے ایک بہت بڑا مسئلہ چوری اور ڈاکہ زنی کا ہے ۔ پہلے ہم صرف یہ سنتے تھے کہ یہاں پر چوریوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ چوری کے ساتھ ساتھ ڈکیتی کی تعداد بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ 

ایک ایسا ہی واقعہ 31اکتوبر کی رات کو میرے ایک بھائی کے گھر میں پیش آیا جو اپنے علاقے میں سماجی خدمات رضا کارانہ طور پر کرنے کی وجہ سے عبد الستار ایدھی کے نام سے جانے جاتے ہیں رات کے ڈیڑھ بجے ان کے گھر تین ڈاکو اسلحے سمیت داخل ہوئے جبکہ ان کی فیملی محو خواب تھی انہوں نے گن پوائنٹ پر سب کو یرغمال بنایا اور تمام گھر کی تلاشی لینے کے بعد تقریباً 3بجے لاکھوں مالیت کی اشیاء لے کر فرار ہوگئے اور اب تک ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں ہوسکی نہ ہی ملزم گرفتار ہو چکے ہیں ۔ یہ چوری ان دنوں میں ہوئی جب محرم الحرام کا مقدس مہینہ اپنے شروع کے ایام میں داخل ہو چکا ہے اور سکیورٹی کے پیش نظر تمام علاقے میں پولیس کی تعیناتی بھی عمل میں لائی جا چکی ہے ۔ ان کا گھر کونوداس کی مرکزی سڑک پر ہونے کے باوجود اس قسم کے سانحات کا رونما ہونا ایک افسوس ناک مقام ہے اور انتظامیہ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ 

اس علاقے میں مرکزی سڑکوں پر کسی قسم کی اسٹریٹ لائٹس کا انتظام نہیں ہے جو ایک یا دو سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں وہ بھی سو فیصد فعال نہیں ہیں ۔ رات بارہ بجے سے چار بجے تک کسی قسم کی پولیس پٹرولنگ نہیں کی جاتی ہے جبکہ یہاں پر رہائش پذیر لوگوں میں 95فی صد سرکاری ملازمین ہیں جن میں سیکریٹریز اور ججز سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین بھی ہیں ۔ سرکاری رہائشی گھروں پر مشتمل اس علاقے میں اس طرح کے واردات کا ہونا ایک قابل مذمت بات ہے ۔ میں اعلیٰ انتظامیہ سے یہ اپیل کرتی ہوں کہ خدارا اس علاقے کی سکیورٹی کے لیے اعلیٰ اقدامات کیے جائیں تاکہ جو واقعہ آج ہمارے ساتھ رونما ہوا ہے اس سے کوئی اور شخص متاثر نہ ہو ۔

ایسے واقعات کے نفسیاتی اثرات کسی خاندان اور خاص طور پر بچوں پر کیا پڑتے ہیں ان سے ہر ذی شعور اور تعلیم یافتہ شخص واقف ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس قسم کے سانحات سے گزرتے ہیں میں صدق دل سے دعا گو ہوں کہ اائندہ کوئی دشمن بھی اس سانحے سے نہ گزرے ۔ کیونکہ اس کے اثرات بہت لمبے عرصے تک ذہنوں پر قائم رہتے ہیں اور اس سے باہر نکلنے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ میں گلگت میں کام کرنے والے معزز افسران سے مطمئن ہوں کہ خدا را اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ہر طرح کے اقدامات سے گریز نہ کریں ۔ کیونکہ گلگت اتنا بڑا شہر نہیں ہے کہ لوگ واردات کر کے طلسماتی جن کی طرح غائب ہوجائیں یہاں پر مجرموں کو پکڑنا دوسرے علاقوں سے نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ 

کسی معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی حیثیت ایک انسانی جسم کی طرح ہوتی ہے جب ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو تمام جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور جسم کی راحت سب کی راحت ہوتی ہے قرآن شریف کے سورۃ سجدہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ 

\”جس کسی نے نیک کام کیے تو اپنے لیے کیا اور جس کسی نے برائی کی تو وہ خود اس کے آگے آئے گی\”

اسلام انفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی تعمیر و تشکیل کے لیے واضح ہدایات دیتا ہے اور اگر ہر شخص انفرادی اصلاح کی کوشش کرے تو معاشرتی اصلاح خود بخوواقع ہوجاتا ہے ۔ معاشرتی اصلاح کی سب سے پہلی اور اہم کڑی مساوات ہے اور دوسری کڑی اخوت ہے اور پورے معاشرے میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ نیکیوں کو قائم کرنے والا ، برائیوں کو روکنے والا اور ایک دوسرے کی مدد کرنے والا ہو ۔ایسی انفرادیت جس میں دوسروں کے حقوق کا خیال نہ کیا جائے اسلام کو مطلوب نہیں اور ایک کامیاب ریاست میں ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ کسی خوف اور دہشت کے بغیر اپنے روز مرہ کے افعال سر انجام دے اور ان حقوق کو پورا کر نے میں انتظامیہ ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے انہیں چاہیئے کہ وہ ایسے انداز میں قانون سازی کریں جن میں ہر کسی کو انصاف میسر ہو اور ہر شخص بلا خوف و خطر ان مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہوجن مقاصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق کی ہے ۔ علامہ اقبال کے بقول 

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 

ورنہ طاعت کے لیے نہ تھے کرو بیاں

حضور پاک ؐ کے ارشاد کے مطابق 

\”تم میں سے ہر شخص داعی ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا\”

ہم اس معاشرے میں ایمان کے اس درجے پر رہ رہے ہیں جہاں پر کسی برائی کو دیکھنے کے بعد اس کی مذمت ہم صرف دل میں کرتے ہیں کونکہ ہمیں خوف ہوتا ہے کہ اگر کسی برائی کی نشاندہی ہاتھ یا زبان سے کریں تو ہمارا نظام ملزم کو تو گرفت میں نہیں لے گا بلکہ ہم خود مجرموں کی طرف سے آنے والی دھمکیوں کا شکار ہو جائیں گے ۔

ایک کامیاب ریاست وہ تصور کی جاتی ہے جہاں پر اخلاقی عمارتوں کی بنیاد بہت مظبوط ہوتی ہے میں گلگت بلتستان کی حکومت سے یہ اپیل کرتی ہوں کہ یہاں پر بھی عدل و انصاف کا ایک ایسا مثالی نظام رائج کریں جو لسانی اور مذہبی تعصبات سے پاک ہو اور جس کے بعد تمام شہری ایک سکون کی زندگی گزار سکیں ۔ معاشرے کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کریں ۔ جہاں پر ہر شہری کسی خوف کے بغیر کسی بھی وقت آزادانہ سفر کر کسے اور وہ موحول دیں جو گلگت بلتستان میں چند سالوں پہلے تک دیکھا جا سکتا تھا ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button