ایک طمانچہ انسانیت کے منہ پر
یوں تو گلگت شہر قتل و خون کی داستانوں سے رنگین ہیں،خواہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر ہو، سیاسی یا علاقائی تعصب کی بنا پر یا کسی اور وجہ سے، لیکن گزشتہ دنوں پیش آنیوالا دلخراش واقعہ نے پورے علاقے اور اسکی تہذیب و تمدن کے پرخچے اڑا دئیے اور انسانیت کا سر گلگت میں شرم سے خاک میں ملا دیا ۔ آٹھ سالہ حسنین کو تین درندوں نے اپنے ہوا و ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا، لاش بھی چھپا دی اور بے چارے والدین کئی روز تو اخبارات میں اشتہارات اور خبروں کے ساتھ دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے ڈھونڈتے رہے۔ آخر کئی روز بعد زخموں سے چور معصوم بچے کا ننھا سا لاشہ لب دریا سڑک کے سل سےبر آمد ہوا۔ لفظ افسوس اس واقعے کیلئے بہت معمولی ہے۔ یہ واقعہ ایسا بھی نہیں کہ آئی گئی اور ہوگئی، بلکہ یہ ایسے کئی دیگر واقعات کا شاخسانہ ہیں۔ یہ کئی ایسے واقعات کا پیش خیمہ بھی ہیں۔ سوچا جائے تو یہ سانحہ ہمیں کئی زاویوں سے لرزہ خیز انکشافات پر مجبور کرتی ہیں۔ کیا قبل از قتل اس کمسن معصوم بچے کیساتھ زیادتی کی گئی تھی؟ اگر ہاں تو کیا یہ پہلا بچہ ہوگا جس کیساتھ اس علاقے میں ایسا کیا گیا؟ کتنے ایسے معصوم کلیاں ہونگیں جنکو نوسرباز اپنے ہوا و ہوس کا نشانہ بناتے ہونگے؟ جنکی خبریں اخبار تک پہونچتی ہیں نہ جن کا کہیں تذکرہ ہوتا ہے۔ کیا ایسا انسانیت سوز واقعہ صرف ٹین ایجر بچوں کیساتھ ہوتا ہوگا ؟ یقینا نہیں، بلکہ اس علاقے میں یہ موذی مرض اتنی پھیل گئی ہے کہ چھوٹے تو چھوٹا، بڑے بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بہت سے نام نہاد بڑے لیول کے لوگ بھی اس انسانیت سوز جرم میں عوام سے کئی ہاتھ آگے ہیں۔ اور باقاعدہ نوجوان خوش شکل لڑکوں اور نوجوانوں کو شاپنگ کروا کر یا پیسے وغیرہ دے دلا کر استعمال کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ایک دوست کا کہنا تھا کہ جس طرح قانون کے رکھوالے مقامی بیوروکریسی اور محکمہ پولیس منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں اسی طرح ان محکموں میں کئی افسران اس کام کیلئے بھی مشہور ہیں جو اپنے ڈرائیوروں، گارڈز و خاکروب لیول کے ملازمین کے ذریعے اپنے لئے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا اہتمام کرواتے ہیں۔کئی نامی گرامی سیاست دانوں کے اسم شریف تو اتنے معروف ہیں کہ انکے پرستار بھی ذکر آنے پر کہتے ہیں کہ انسان ہیں خطا کا مرتکب ہو ہی جاتے ہیں۔
حالیہ واقعہ میں جس طرح اخبارات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹین ایجرز ملوث ہیں۔ اور سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے جنکو پکڑے گئے ہیں وہ تینوں اپنی لڑکپن کی عمروں میں ہیں، یہ نکتہ بذاتِ خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ در اصل ہمارے معاشرے میں تربیت کا فقدان ہے۔ جب گھر سے تربیت ایسی ملے گی تو ظاہر ہے نوجوانی میں لا ابالی پن تو ہوتی ہی ہے۔حقیقی مجرم والدین ہیں جن کے زیر سایہ ایسے کمبخت لڑکے پروان چڑھے۔ ساتھ ہی ہم سب کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے گھروں میں بچوں کی تربیت کا کیسا اہتمام ہے؟ ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اپنے بچوں کو بے لگام چھوڑے ہوئے ہوں اور آزاد منش و آوارہ گردوں کی سوسائٹی میں رہ کر ایسے جرائم کا مرتکب ہو رہے ہوں؟یہ لازم ہے کہ فیمیلیز میں احتساب کا عمل کیا جاتا رہے خاص طور پر گھر کے سربراہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہر فرد کی روزمرہ کی مصروفیات کو جانچیں، اور لازمی طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں اور انکے حلقہٗ احباب پر نظر رکھیں۔آج کو یہ دلخراش واقعہ گلگت میں پیش آئی ہے تو ممکن ہے کل آپ کے علاقے اور محلے میں بھی پیش آئے، یا پیش آرہا ہو اور آپ اس سے غافل ہو۔۔ لہٰذا اپنے معاشرے میں ارد گرد نظر رکھنا بھی معاشرے کے سرکرہ افراد پر لازم ہیں۔
جس طرح ہر قتل ، اقدامِ قتل اورشر انگیزی کے فورا بعد کچھ حد تک اس معاملے میں گرمائش رکھا جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں لے دے کر کے اصل کرداروں کو چھپایا اور جرائم کو دبایا جاتا ہے، جیسے کہ گلگت میں سابق آئی جی کو دن دیہاڑے پارک میں قتل کرنے،شہادت علامہ ضیاالدین رضوی،ڈپٹی سپیکر اسد زیدی قتل کیس سمیت دیگر سینکڑوں کیسسز میں کیا گیا اور بعد میں ان کے قاتلوں کو باعزت بری کیا گیا ، اسی طرح کم سن اور معضوم حسنین کے قاتلوں کو بھی چھوٹ دینے کا راستہ ابھی سے نکالا جارہا ہے۔ایک ملزم کو اندر اور باقی نوسربازوں کو باہر نکالنے کی کوششیں شروع ہو چکیں ہیں۔ اور گمراہ معاشرے میں پیشہ ور مجرموں کی سرکوبی کی بج ائے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر ایک طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی کوشش کی جارہی ہے۔خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کرکے کیا ہم دوسرے ایسے مجرموں کو موقع نہیں فراہم کر رہے؟ وہ تو یہی سوچیں گے کہ اول تو پکڑے ہی نہیں جانا، اگر پکڑ ہوئی بھی تو جسکی قسمت پھوٹے اسی کے سر سارے الزامات ڈال کر باقیوں نے پہلے سے زیادہ آزادی کیساتھ وہی اوباشی کرنے ہیں۔اور جسے پکڑے بھی جانا ہے انہیں کچھ مہینوں بعد کسی اعلیٰ شخصیت کی ضمانت پر چھوٹ مل ہی جانی ہے۔خداکرے کہ اس معصوم کے قاتلوں کو نشان عبرت بنتا دیکھ پائے ورنہ تو بقول بشیر بدر؎ سچ سیاست سے عدالت تک بہت مصروف ہے
جھوٹ بولو جھوٹ میں اب بھی محبت ہے بہت
گلگت بلتستان کے صدر مقام میں،صوبائی اسمبلی اور سکریٹریٹ سے چند کلومیٹرز کے فاصلے پر پیش آنیوالے اس انسانیت سوز واقعے پر اسمبلی اور حکمران اپنا کردار ادا کرنے کی بات تو چھوڑیں ایک لفظی مذمت تک کرنے کا سینس نہیں رکھتے۔اخبارات سے معلوم ہوا کہ اس لرزہ خیز قتل کے اگلے روز گلگت اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان پر کئی دنوں قبل ہونیوالے (قاتلانہ)حملے کےخلاف قرارداد منظور کی گئی، لیکن معصوم حسنین کا ذکر کرنا کسی سے گوارا نہیں ہوا۔
معروف ہے؎ عیادت رسمِ دنیا تھی چلے آتے تو اچھا تھا
تمہارے پوچھ لینے سے نہ جی جاتے نہ مرجاتے
عوام اور اس معصوم مقتول کلی کے والدین بھی جانتے ہیں کہ اس اسمبلی اور اس کے کرتا دھرتاوٗں کی پہنچ کہاں تک ہیں۔ ان سے اگر کچھ ہونا ہوتا تو یہ اپنے سابق ڈپٹی سپیکر کے قاتلوں کے خلاف کچھ کرواتے۔ لیکن پھر بھی دنیا سمجھتی کہ ان میں انسانیت نامی کوئی شے اب بھی موجود ہیں۔ لیکن جس طرح یہ اسمبلی ، اس کی وزارتیں اور کاغذی نام کی حد تک ہیں اسی طرح انکی سوچ بھی کاغذی ہیں۔ہم ان سیاسی پتلوں سے کوئی امید رکھنےسے قاصر ہیں لیکن صحافی حضرات، ججز وکلا اور گلگت سٹی خاص طور پر اس مخصوص علاقے کے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس انسانیت کے چہرے پر پڑنے والے بد ترین داغ کو اچھی طرح دھونے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہ نہ صرف علاقے کیلئے بلکہ پاکستانیت، مسلمانیت اور انسانیت کے ماتھے اک سیاہ ترین دھبہ ہے جس سے آئندہ کیلئے بچاوٗ ہر صاحبِ فہم پر واجب و لازم ہے۔