سیاسی باورچی خانہ
محترم قارئین آپ نے اکثر شاہی محلات، تاریخی کھنڈرات اور بلند و بالا عمارتوں کے بارے میں تو پڑھا ہی ہوگا۔ اگر ہاں تو مجھے آپ لوگوں سے ہمدردی ہے کہ یہ مضمون ان سے کچھ مختلف ہے اور اگر نہیں پڑھا تو قوی امید ہے کہ آپ آئندہ ضرور پڑھیں گے ۔ عمارتیں اپنی نوعیت اور ملکیت کے اعتبار سے ہر دور میں جاذبِ نظر اور باعثِ جاہ و ہشم رہی ہیں ۔ کچھ عمارتوں کی اہمیت تو کھنڈر بننے کے بعد کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے۔ آپ لوگوں نے ہوا میں محل تعمیر کرنے کا تو سنا ہی ہوگا۔ آئیے ایسے ہی ایک تخیلاتی عمارت کی سیر کرتے ہیں۔ جیسے احمقوں کی بھی جنت ہوتی ہے ویسے ہی ایک سیاسی عمارت بھی ہوتی ہے جس کی بنیادیں اگر جمہوریت پر کھڑی ہوں تو عوام خشت اول چوں نہت دیوار کچ سے نگاہیں مول لیتی ہیں وگرنہ آمریت بھی ایک طرز حکومت ہی تو ہے۔
تو قارئین محترم ! سیاسی بلند پائیاں اور عالی شاں عمارت کے اند ر ایک نیم روشن کمرہ ہے جو صاحب ثروت و حیثیت کے خواب گاہ سے متصل ہے۔ یہ ایک سیاسی باورچی خانہ ہے ۔ اس کی سیر کرانے کے لئے بطور رہنما ایک سیاسی باورچی (چمچہ )ہے جو عموماً اس خانہ لطیف کا حاکم ہوتاہے اور عمارت کے مصروف ترین اور مستعد عملہ ہے کیونکہ گھر کے اند ر ہو یا باہر کھچڑی اکثر اسی کے ہاتھوں سے ہی پکتی ہے۔لو جناب ! باورچی خانے کا نیم وا بابِ امید انتخابات کے دنوں میں تو بالکل بے قفل و زنجیر کسی پھٹکار پوڈری کے منہ کی مانند کھلا ہی رہتا تھا مگر اب حصولِ وزارت کے بعد نہ صرف اس کی واشگافیت میں کمی آئی ہے بلکہ چنداں نامزد افراد پر ہی وا ہوتا ہے۔ ذائرین میلوں دور سے آکر دیر گئے تک اسے ٹکٹی باندھ کر تکتے رہتے ہیں اور بستہ عارضہ کھولے بغیر ہی راہ لیتے ہیں۔ ان نامرادوں کے مطابق اکثر ان کو اند ر سے صاحب کی اپنی ہی زبانی اپنی غیر موجود گی کی خبر آتی ہے۔ خیر کمرے کی چار دیواری( بلکہ سہ دیواری کہنا بے جا نہ ہوگا، کیونکہ ایک دیوار کی جگہ تو پوری ایک کھڑکی نے لے لی ہے۔ جس سے باہر جتنا واضح دیکھائی دیتا ہے اتنا ہی باہر سے اندر کم دیکھائی دیتا ہے) خالص جمہوریت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ کھڑکی کے بیچوں بیچ ایک روشندان ہے جہاں سے عوامی امنگوں کی کرنیں چھن چھن کر اندر آتی ہے اور صاحب خانہ کو ایک روشن مستقبیل کی نوید دیتی ہیں۔ چھت کی تعمیر میں خاص روایتی طرز تعمیر اور ثقافتی فنون کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ اس کی طرز تعمیر میں ایسے ماہر کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں تاکہ دولت کی بارش اور چمک سے چھت نہ ٹپکے اور بادِ مخالف کی طرف سے پڑنے والے اولے (جو غریبوں پر تواکثر سر منڈواتے ہی پڑتے ہیں) سے بھی بچا یا جا سکے۔ چھت کے وسطی چمن کے مرکز سے سونے اور چاندی سے مزین ایک فانوس لٹک رہا ہے جو آئندہ مستقبل کی امید وزارت کی لو سے روشن ہے۔ البتہ کبھی کبھار اقرباء پروری، اختیارات کے ناجائز استعمال اور فرعونیت کے طوفانوں سے جلتی بجھتی رہتی ہے۔ سیاسی گرما گرمی کو بحال رکھنے اور اس کی تابکاری پورے کمرے میں انصاف کے ساتھ فراہم کرنے کے لئے چولہے کو کمر ے کی وسط میں بنایا گیا ہے۔ بعض ناقدین کی کافرانہ نظرمیں اس چولہے کی تپش کو برقرار رکھنے کے لئے غرباء شہر کے چولہے ٹھنڈے کر دیئے جاتے ہیں۔ چولہے کے بائیں طرف چند بد نما لوٹے رکھے گئے ہیں ۔ ان کی گسی ہوئی حالت اور بدنما دھبوں سے یہ بات عیا ں ہے کہ یہ برتنِ بے پن کثیر المقاصد اصولوں پر مستعمل رہے ہونگے۔ لوٹوں پر سے جمی نظر کویکایک ایک قوی ہیکل دیگ اپنی طرف مرغوب کرتا ہے۔ باورچی کے مطابق اس دیگ کو اٹھانے کے لئے جمہوری طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اسے چولہے پر چڑھا کر حسبِ منشاء خیالی پلاؤ پکایا جا سکے۔ دروازے کے ساتھ ایک عصا پڑھا ہو ا ہے ہماری خام خیالی دیکھیں تو ہم نے تو اسے وہی عصاء ہی سمجھا جس کے پھینکتے ہی ایک اژدھا نمودار ہو گا مگر باورچی نے ہماری تصحیح کر دی اور کہا کہ جب آپ کے پاس لاٹھی ہو تو کبھی بھینس کی پرواہ نہیں ہوتی۔ ایک طرف چمچوں کی لائین لگی تھی ان میں سے ایک قدرے بڑا تھا اس کی وجہ تخلیق دریافت کیا تو معلوم پڑا کہ یہ ہر دیگ کا چمچہ ہے۔ اس کے بغیر کھچڑی اور پلاؤ پکتی نہیں اور دال تو کسی بھی نہیں گلتی۔ کھانوں کا پوچھا تھا مگر جب یہ معلوم ہو ا کہ گھر کی مرغی یہاں بھی دال برابر ہی ہے تو اوسان خطا ہو گیا۔ کھڑکی کے ساتھ ہی ایک چوپائی ہے جس پر ایک مرتبان اوندھے منہ پڑی ہے اس کے استعمال کے بارے میں پتہ چلا کہ اسے سیاسی ملاقاتوں میں سامعین کے دماغ کی دہی بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ فرش پر مغرب کی پیروکاری کی جھلک سنگ مر مر سے نمائیاں ہے اس کی خوبی یہ ہے یہاں اپنی اوقات میں چلنے کا سلیقہ نہ رکھنے والے لوگ بھی پھلستے نہیں ہے۔مکان کی اونچائی یہاں کے پکوان کے پھیکا پن کی دلیل ہے مگر باورچی کے مطابق سارے مرچ مصالحے تو سیاسی بیانوں میں لگا ئے جاتے ہیں تو پکوان پھیکا ہی ہو جاتا ہے۔ یہا ںآنے والے مہمانوں کا استقبال ان کا حلیہ دیکھ کر نہیں بلکہ سیاسی کلیہ دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ اپنوں کو یہاں خوب کھلایا پلایا جا تا ہے مگر اغیا ر بھی خالی پیٹ واپس نہیں لوٹتے ، کیونکہ وہ کبھی دھکے کھاکر، کبھی صبر کا پھل کھا کر اور کبھی لہو کا گونٹ پی کر لوٹتے ہیں۔ جمہوریت اور عوامی طاقت کی بنیاد پر کھڑی اس عمارت میں عوامی اینٹیں ایک دوسرے سے اس قدر مضبوط جڑی ہوئی ہیں کہ اس کی سادہ سی دیوار بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار نظر آتی ہے۔ مگر مٹھی بھر کم ظرف اور نامعقول افراد ذاتی انا ، منافرت اور مفاد پرستی کے نشے میں دھت کرسی ملتے ہی اس عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور جمہوریت کی عظیم الشان عمارت کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ آج بھی کچھ ایسے سیاسی باورچی خانے عوامی ضیافتوں کا اہتمام کر رہے ہیں اور عوام کو اپنی بھوک مٹانے سے فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ایک نظر اس چاردیواری کی بناوٹ اور اس سے باہر کے ماحول سے آشکار بھی ہو جائے۔ صاحب خانہ اور وہاں کے کرم فرماؤں کی نظریں غریب شہر کے ٹھنڈے چولہوں پر پڑتی ہی نہیں اگر یہی حالت برقرار رہی تو وہ دن دور نہیں کہ روشندان سے اندر داخل ہونے والی کرنیں نور کی بجائے نار برسائے اور مفاد پرستی ، انانیت اور خودنمائی کے رنگ چڑھے بلند شان عمارتیں قصرِ قیصر و کسریٰ کی تاریخ دہرائے ، فلک بوس عمارتیں زمیں بوس ہو جائے ۔ یاد رہے جو اس خانہ قدرت کا مالک ہے اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔ وہاں کوئی چمچہ گیر ی ممکن نہیں۔