کالمز

گلگت بلتستان میں مذہبی منافرت اور مستقبل کا لائحہ عمل

گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں توہین صحابہ اور اسکے ردعمل میں احتجاجی دھرنوں اور روڈ بلاک کے نقصانات اور مستقبل میں اس کے برے اثرات کی فہرست بہت طویل ہے. اہل سنت، اہل تشیع، گلگت بلتستان، حکومت اور ریاست کے ساتھ غریب عوام بھی ان نقصانات سے متاثر ہونگے.

بدیہی بات ہے اس سارے پروسیجر میں اہل سنت کا نقصان زیادہ ہوگا. ماضی کے تجربات بھی اسی پر دال ہیں.

ایسے میں اہل سنت و اہل تشیع کے علماء کرام اور سنجیدہ طبقات کو اپنے اپنے حلقوں میں سنجیدگی سے کچھ معاملات کو دیکھنا ہوگا.

اہل سنت علماء، عمائدین اور سنجیدہ اہل فکر اور وکلاء کو انتہائی باریک بینی سے اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ

توہین صحابہ و اہل بیت اور دیگر مذہبی نزاعات میں، دھرنوں، روڈ بلاک اور احتجاج سے ان کے مسائل حل ہونگے یا حل ہوئے ہیں ؟

ماضی میں ایسا کوئی مثبت نتیجہ نکلا ہے یا پھر سخت بدنامی ہوئی ہے.؟

ان تمام چیزوں کا سائنٹفک انداز میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے. اور اپنے لیے اس تجزیہ کی روشنی میں مستقبل کا دو ٹوک لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے.

ایسے معاملات میں ماضی قریب کے اکابر علماء کا طرز عمل اور دینی تحریکات میں ان کی کاوشوں کا جائزہ لینے کے بعد مجھے یہی سمجھ میں آرہا ہے کہ پورے ملک میں بالخصوص گلگت بلتستان میں انہیں آئین و قانون کا سہارا لینا ہوگا. آئین پاکستان، تعزیرات پاکستان، امن معاہدات گلگت بلتستان بالخصوص امن معاہدہ 2005، اور مساجد ایکٹ 2014 اور دیگرعدالتی قوانین اور سائبر کرائم کے قوانین موجود ہیں. جب بھی ایسی صورت حال پیش آجائے یہی دستوری اور قانونی طریقہ کار آخری راستہ ہے. باقی سارے راستے عارضی اور وقتی ہیں.

بار بار کے تجربات سے اخلاقی، مالی، معاشی، صحافتی، میڈیائی، علمی، حکومتی یہاں تک کہ ریاستی غرض ہر لحاظ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ زیادہ نقصان اہل سنت کو ہوا ہے. لہذا دھرنوں، جھگڑوں، روڈ بلاک اور مذہبی منافرت کی بجائے صرف اور صرف آئینی، قانونی اور عدالتی اور قانون سازی کا راستہ اپنانا ہوگا. یہ راستہ بظاہر مشکل، طویل اور روح فرسا ہے مگر انتہائی دیرپا ہے.

اہل تشیع کے علماء و شیوخ، عمائدین، سنجیدہ اہل فکر اور وکلاء کو بھی اپنے علماء و ذاکرین کی کتب، بیانات اور بالخصوص اہل سنت کے مقدسات کے حوالے سے انتہائی باریک بینی اور زمینی حقائق کے مطابق جائزہ لے کر از سرنو مکمل لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے.بے شک اپنے ہی مراجع اور مجتہدین کی آرا و اقوال کی روشنی میں مرتب کیجئے.

آپ انتہائی باریک بینی سے بالخصوص گزشتہ عشروں کا لٹریچر، بیانات اور سیاسی و احتجاجی ایکٹیویٹیز اور سماجی حرکیات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس پورے عرصے کی منافراتی و نزاعی جنگ و جدل میں آپ کا نقصان ہوا ہے یا فائدہ؟.
اس دھینگا مشتی میں آپ کی پوزیشن کیا بنی ہے؟ اور آپ کہاں کھڑے ہیں؟
جو لوگ، طبقات، ادارے اور جماعتیں کل تک آپ کا دفاع کررہی تھیں، اور ہر اتحاد میں آپ کو ساتھ لینا ضروری سمجھتی تھیں آج وہ لوگ دور ہوئے ہیں کہ قریب ؟ وہ جماعتیں آپ سے کنارہ کشی کررہی ہیں یا پھر پینگیں بڑھا رہی ہیں؟
کہیں وہ سب آپ کے مقابل کھڑے تو نہیں ہوئے؟

مجھے امید ہے کہ دونوں فریقین کے اہل علم اور سنجیدہ طبقات ان موضوعات پر ضرور غور کریں گے.

یہ بات آپ دونوں کو بالآخر سمجھنا اور ماننا ہوگا کہ دو طرفہ لڑائی جھگڑا، قتل و غارت، مذہبی منافرت، دل آزار تقاریر، لٹریچر، بیانات، دھرنے، احتجاج وغیرہ دونوں کے حق میں مفید نہیں اور نہ ہی ریاست کے حق میں یہ چیزیں بہتر ہیں. ریاست کے کارپردازوں کو بھی سنجیدگی سے ان ایشوز کو ایڈرس کرنا ہوگا.

جب آپ سب کے حق میں مفید نہیں ہے تو مستقبل کے لیے انتہائی باریک بینی سے لائحہ عمل طے کیجئے. اور عمل کرنا شروع کیجئے. ورنا سب کا بھاری نقصان ہوگا اور سچی بات یہ ہے کہ ان نقصانات کا کوئی بھی متحمل نہیں.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button