کھوار موسیقی، سحرؔ سے شادابؔ تک
کھوار موسیقی کا اگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت سے ایسے نام سامنے آتے ہیں جو اپنے زمانے میں فن اور شہرت کے عروج پر تھے اور کھوار موسیقی میں ان کا نام ہمیشہ رہے گا۔ اگرچہ ہمارے ہاں فن موسیقی ذریعہ معاش کے طور پر کوئی کار آمد فن نہیں ہے لیکن جن شخصیات نے اس میدان میں اپنا لوہا منوایا وہ صرف اپنے شوق کے بل بوتے پر وہ سب کرتے رہے جس کی وجہ سے وہ اپنے لیے خاص مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ امیر گل امیر سے لیکر گل نواز خاکی تک اور میرزہ علی جان سے لیکر جہان دار شاہ تک سب نے اپنے اپنے وقت میں لوگوں کے دلوں میں راج کیا۔ ان تمام شخصیات کی خدمات کو بیان کرنے کے لیے پوری کتاب بھی کم پڑ جائے گی۔ ایک مضموں میں ان سب کا تذکرہ نا ممکن ہے اس لیے اس مضموں میں ان فنکاروں اور موسیقاروں کو زیر بحث لانے کی کوشش کی جائے گی جن سے موجودہ دور کے نوجوان واقف ہیں اور جن کے کام کو اپنے بچپن سے لیکر جوانی تک دیھکتے آرہے ہیں۔
اگر ہم نوے کی دہائی سے شروع کریں تو سب سے پہلے جو نام ذہن میں آتا ہے وہ ہے اقبال الدین سحرجن کی شاعری اور آواز نے ایک زمانے کو اپنے سحر میں مبتلا کیے رکھی۔ ان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ ہمیشہ اپنا کلام ہی گایا کرتے تھے اب اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن انہوں نے جو بھی گانا گایا کمال گایا اور ایسا گایا کہ آنے والے فنکاروں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ ان کے سیتار کا بجانے کا اپنا الگ انداز تھا۔ کوئی بھی کھوار موسیقی کا شد بد رکھنے والا شخص سیتار کی آواز سن کر با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہ سازسحر کا ہے۔ ان کے بعد بھی بہت سے اچھے اچھے فنکار آئے لیکن جو انداز انہوں نے اپنایا وہ صرف انہی کا خاصا رہا ہے۔
اسی دور میں شجاع الحق اور بابا فتح الدین کا گروپ بھی اپنے عروج پر تھا جن کے ساتھ سیتار میں چیئرمین شوکت علی نے شہرت حاصل کی۔ شجاع الحق کی اونچی آواز اور ان کے ساتھ بابا فتح الدین کی آواز کا رعب و دبدبہ ہر کسی کے دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کرنے کے لیے کافی تھا۔ انہوں نے نئے گانے تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ پرانے گانوں کو بھی زندہ رکھا لیکن ان کے کھاتے میں اتنے نئے گانے نہیں ہیں جتنے اقبال الدین سحر نے تخلیق کیے تھے۔ وجہ ظاہر ہے کہ سحر خود شاعری بھی کرتے تھے اس لیے ان کے پاس مواد کی کمی نہیں تھی۔
بات اگر نوے کی دہائی کی ہو اور رحمت علی کی بات نہ کی جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ گلگت سے تعلق ہونے کے باوجود کھوار موسیقی میں جتنی شہرت رحمت علی کو ملی وہ چترال کے مشہور فنکاروں سے کسی بھی صورت کم نہ تھی۔ ایک فنکار اپنے عروج کا زمانہ دیکھنے کے بعد اکثر گمنامی کا شکار ہو جاتا ہے اور دوبارہ اس مقام پر آنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن رحمت علی نے یہ کرشمہ بھی کر کے دیکھادیا جب کارگل جنگ سے واپسی پر جنگ کی حالات کے پس منظر میں ان کا البم مارکیٹ میں آیا تو پھتر دل لوگ بھی رونے پر مجبور ہوئے۔ میں نے اپنی آںکھوں سے لوگوں کو دھاڑیں مارکر روتے ہوئے اور اچھے اچھوں کو پاگلوں کی طرح بے چین ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے دور میں گلگت سے ہی تعلق رکھنے والے مظفر نے بھی کافی شہرت حاصل کی لیکن اپنے کیرئیر کے آغاز میں ہی کارگل جنگ میں وہ شہید ہوگئے۔
اس دوران تھوڑے وقت کے لیے ایک تعطل آیا اور کوئی قابل ذکر فنکار منظر عام پر نہیں آئے۔ اچانک کھوار موسیقی میں منصور علی شباب کی انٹری ہوئی اور پنجابی محاورے کے مطابق وہ ” آگیا تے چھا گیا ٹھا کر کے”۔ انہوں نے پرانے اور نئے ہر طرح کے گانوں میں اپنا لوہا منوایا۔ کھوار موسیقی میں غزلوں کا آغاز بھی کسی حد تک ان کا کارنامہ ہے۔ جتنی اچھی ان کی گائی ہوئی غزلیں ہیں ان سے کئی گنا بہتر وہ پرانے اور کلاسک گانے ہیں جن کو لوگ بھول ہی چکے تھے۔ وہ اگر غزل گائیکی کا آغاز نہ بھی کرتے تو کلاسیکی گانوں کو انہوں نے جو نئی زندگی دی ہے، موسیقی کی تاریخ میں ان کا یہی کارنامہ ہی ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ کہتے ہیں کہ اپنی محنت سے بلند مقام حاصل کرنا مشکل کام ہے لیکن اس مقام پر اپنے آپ کو برقرار رکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ لیکن منصور علی نہ صرف آج بھی شہرت کی بلندیوں پر قائم ہے بلکہ مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ منصورکے ساتھ سیتار کی دنیا کا درخشان ستارہ افتاب عالم افتاب بھی لوگوں کی نظروں میں آگیا جو آگے جا کر بہت شہرت حاصل کی۔ اگر منصور علی اور افتاب عالم کی شہرت کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ دونوں میں سے زیادہ شہرت کس کے حصے میں آئی۔ کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے فن کے باوا آدم سمجھے جاتے ہیں۔
اسی دور میں گلگت سے ایک بار پھر ممتاز علی انداز کی صورت میں ایک نیا چہرہ سامنے آیا جو اچانک شہرت حاصل کی لیکن تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اب بھی کبھی کبھار ان کے بہت اچھے اچھے گانے منظر عام پر آتے ہیں لیکن ان کو وہ مقام حاصل نہیں ہوا جو رحمت علی اور مظفر کے حصے میں آیا۔
پھر ایک نئے انداز اور نئی غزلوں کے ساتھ انصار الہیٰ ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے غزل گائیکی کو عروج تک پہنچا دیا۔ جتنی مہارت منصور کو کلاسک گائیکی میں حاصل ہے اتنی ہی مہارت انصار الہیٰ کو غزل گائیکی میں حاصل ہے۔ وہ جب غزل گانا شروع کرتے ہیں سننے والے جھومنے لگتے ہیں اور جھومنے والے ناچنا شروع کرتے ہیں۔ آج بھی اگر ٹاپ تھری فنکاروں کی لسٹ بنائی جائے تو اس میں انصار الہی کا نام ضرور آئے گا۔
انصار الہی کے بعد بہت سے نئے فنکار سامنے آئے اپنی حد تک سب نے کھوار موسیقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان میں سے محسن حیات شاداب اور ظفر حیات کے نام قابل ذکر ہیں۔ آج کل یہی دو فنکار چھائے ہوئے ہیں۔ اور بڑھ چھڑ کر کچھ نیا کرنے کی تک دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے دور میں کھوار گانے پشتو موسیقی کے ساتھ گانے کا رجحان بھی سامنے آگیا جس میں ان کا بہت اچھا پرفارمنس رہا ہے لیکن صرف زبان کھوار ہونے کی وجہ سے ہم ان کو کھوار موسیقی کا درجہ نہیں دے سکتے کیونکہ موسیقی صرف آواز کا نام نہیں اس میں تمام آلات موسیقی کا شامل ہونا لازمی ہے۔ پشتو آلات موسیقی کے ساتھ کھوار گانا گا کر اس کو کھوار موسیقی کا درجہ نہیں دے سکتے۔ اس میں فنکاروں کے فن کی تعریف نہ کرنا ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی لیکن اس موسیقی کو کھوار موسیقی کہنا کھوار زبان اور ادب کے ساتھ زیادتی ہوگی۔