محرومیاں
تحریر مقبول جان
1971میں ملک عزیز عالمی سازشوں اور بھارت کی سیاسی داخلی مداخلت سے دو ٹکڑوں میں بٹ گیا بچے کچھے زخمی مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر آئین پاکستان منظور کیا اس آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیاور قومی اسمبلی نے پورے ملک سے راجگی اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ کردیا اس آئین کے تحت گلگت بلتستان میں بھی راجگی کا بوسیدہ نظام ختم ہوا PPPکے بنائے ہوئے آئین میں ناردرن ایریاز کے عوام کی غربت اور پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم پر سبسڈی بھی دی اور ناردرن ایریاز کو سیل ٹیکس سے مستشنیں قرار دیا مگر راجگی نظام کے خاتمے کے بعد بھی ناردرن ایریاز کے عوام قومی سیاسی دھارے میں شامل نہ ہوسکیں پی پی پی کی ناردرن ایریاز کیلئے راجگی کے خاتمے اور گندم پر سبسڈی دینے کی وجہ سے آج تک عوام میں ووٹ بھی مل رہے ہیں اور پذیرائی حاصل ہے راجگی نظام اور ایف سی آر کے نظام کو ختم کرنے کے بعد ناردرن ایریاز مشاورتی کونسل بنادی گئی مشاورتی کونسل کا انتظامی سربراہ کمشنر ناردرن ایریاز ہوتا تھا 1980کے عشرے میں مارشل لاء کی حکومت میں مشاورتی کونسل کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے مشاوری کونسل کا چیئر مین یا سربراہ وفاقی وزیر امور کشمیر کو بنایا گیا 1989میں بھی کونسل کی تعداد میں اضافہ کرکے مشاورتی کونسل کے ایک ممبر کو وزیر اعظم پاکستان کا ناردرن ایریاز کیلئے مشیر بھی نامزد کیا گیا تاہم 90کی دہائی میں وفاقی حکومتوں نے مشاورتی کونسل کا نام تبدیل کرکے ناردرن ایریاز کونسل رکھ دیا اور نئی حلقہ بندیاں کرکے ممبران کونسل کی تعداد24کردیا اوار ساتھ ہی ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیداروں میں پارٹی ٹکٹوں کا اجرا کیا اس کے ساتھ ہی ناردرن ایریاز کیلئے وفاقی سیاسی پارٹیوں نے منشور بنائے اور مختلف اعلانات اور وعدے کرتے رہے مگر آزادی سے تاحال وفاق میں حکومت کرنے والی سیاسی اور فوجی حکومتوں نے کشمیر افیئرز کے نام پر گلگت بلتستان کے عوام کو سیاسی و آئینی محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا حالانکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک نیم خود مختار حکومت قائم ہے اور مقبوضہ کشمیر کو تو انڈیا نے اپنی لوک سبھا میں نشستیں بھی دی ہے اور وہاں پر آزادی کی تحریکیں چلانے کے باوجود صوبائی حکومت بھی بنائی گئی ہے جبکہ گلگت بلتستان کے عوام کی تمام تر وفاداریوں کے باوجود تاحال وفاق میں نمائندگی دینے کے بجائے مختلف بہانوں سے غیر آئینی طریقوں سے حقوق سے محروم رکھ کر ٹیکس وصولنے کا عمل شروع کیا گیا
وفاقی حکومتوں نے گلگت بلتستان کے سیل ٹیکس کے مستشنیٰ ہونے کے باوجود1980کے عشرے میں شاہراہ قراقرم کے راستے کاروبار کرنے والے گلگت بلتستان کے تاجروں سے سوست کے مقام پر غیر قانونی طریقہ سے سیل ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا تاہم1996میں سیل ٹیکس کے حوالے سے الجہاد ٹرسٹ کے دائر کردہ مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے امید کی آخری کرن سپریم کورٹ آف پاکستان نے1999میں تفصیلی فیصلہ کیا جس کے مطابق ناردرن ایریاز کو جب تک وفاقی و قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان میں نمائندگی نہ ملے تب تک ہر قسم کے ٹیکس کو ناردرن ایریاز میں بلاجواز اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور 1999میں مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ 90دن کے اندر ناردرن ایریاز کے عوام کو آئینی حقوق دینے کے بارے میں حکومت کے تحفظات سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو آگاہ کرنے کا حکم بھی دیا مگر ن لیگ سے زیادہ گلگت بلتستان کے عوام کی بدقسمتی سے ملک عزیز پھر مارشل لاء کا شکار ہوگیا مارشل لاء کے دوران بننے والی مسلم لیگ ق کی وفاقی حکومت نے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کا نام قانون ساز اسمبلی رکھ دیا اور اسمبلی میں خواتین کی نشستوں کا اضافہ کیا فوجی دور حکومت نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کانا ڈویژن کے ایک سیکشن آفیسر کے حکم نامے جاری کیا جس کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے دراصل سوست بارڈر پر سیل ٹیکس سے مستشنیٰ قرار نہیں دیا ہے بلکہ پانچ فیصد انکم ڈیوٹی میں چھوٹ کا حکم دیتے ہوئے دوبارہ سیل ٹیکس وصولنا شروع کیا حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح احکامات دیتے ہوئے قومی خزانے میں جمع شدہ روقم بھی واپس کی تھی مگر ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں فوجی حکومتیں کسی کورٹ کو جوابدہ نہیں ہوتیں مارشل لاء اور ق لیگ کے جانے کے بعد وفاق پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور ناردرن ایریاز میں بھی PPPکامیاب ہوئی اور ناردرن ایریاز قانون ساز اسمبلی نے اپنا نام تبدیل کرکے صوبائی اسمبلی رکھ دیا ناردرنا ایریاز کا نام متفقہ طور پر گلگت بلتستان رکھ دیا گلگت بلتستان صوبائی اسمبلی کا نام توصوبائی ہوگیا مگر وفاقی حکومتوں نے اس صوبائی اسمبلی کے پاس ناردرن ایریاز سے بھی کم اختیارات دئے مگر نام نہاد اسمبلی نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کرتے ہوئے این سی پی گاڑیوں پر سالانہ رجسٹریشن و کوپن ٹیکس نافذ کردیا حالانکہ این سی پی گاڑیاں ملک عزیز کے ٹیکس نیٹ میں آنے والے شہروں سوات چترال وغیر کو افغانستان سے سمگل ہوکر گلگت بلتستان میں داخل ہوتی ہیں اور سوات چترال ودیگر شہروں میں این سی پی گاڑیوں کی رجسٹریشن بغیر کسی ٹیکس کے متعلقہ علاقوں کے تھانوں میں ہوتی ہے این سی پی نمبر ایشو ہوتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں صوبائی اسمبلی کے شاہی اخراجات وغیرہ کو پورا کرنے کیلئے غیر قانونی طریقے سے بھتا ٹیکس ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے زریعے لیا جارہا ہے اس صورتحال پر گلگت بلتستان کے مقامی پریس میں چھپنے والے ایک آرٹیکل پر سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق جسٹس نواز خان عباس نے صوبائی اسمبلی اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ہدایت کی وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1999کے فیصلہ کی خلاف ورزی نہ کریں اس سوموٹو ایکشن کے کچھ عرصہ تک صوبائی اسمبلی نے اپنا فیصلہ موخر کردیا اور اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی گلگت بلتستان میں ٹیکسیشن کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا مگر میڈیا میں اس معاملے کے ٹھنڈا ہونے پر صوبائی اسمبلی اور گلگت بلتستان ایکسائز نے سپریم اپیلٹ کورٹ کے احکامات کو پامال کرتے ہوئے دوبارہ این سی پی گاڑیوں کی رجسٹریشن اوار سالانہ ٹیکس وصول کرنا شروع کیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے صوبائی اسمبلی نے یہ سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے گلگت بلتستان میں جاری ترقیاتی کاموں کے ٹھیکیداروں کے بلوں سے بھی غیر قانونی ٹیکس کاٹنا شروع کردیا اورمعاملہ یہاں نہ رکا اب تو35ہزار سے زیادہ تنخواہ پانے والے سرکاری ملازمین کے تنخواہوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے کاناڈویژن کی بیوروکریسی کے زیر انتظام چلنے والی نام نہاد صوبائی اسمبلی نے اپنے کاندھے پر بیوروکریسی کی رکھی ہوئی بندوق سے ٹیکس کا غیر قانونی فائر کرکے نہ صرف اپنے قائد کے دئے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کی بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے احکامات سے بھی فٹبال کھیلی گلگت بلتستان صوبائی اسمبلی جس کا وفاق پاکستان میں پانچویں صوبہ کے طور پر کوئی حیثیت نہیں یہ محض کانا ڈویژن کے زی انتظام چلنے والی مشاورتی کونسل سے زیادہ حیثیت میں نہیں صرف اپنا نام صوبائی اسمبلی رکھ کر ااس نام نہاد اسمبلی نے بیوروکریسی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی کھلی خلاف ورزیوں کا راستہ دیا ہے دوسرے الفاظ میں یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات اور فیصلہ کی کھلی خلاف ورزی ہے لہٰذا بذریعہ کالم سپریم کورٹ آف پاکستان اور سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان سے استدعا ہے کہ ملک عزیز کی اعلیٰ عدالت کے احکامات کی خلاف ورزیوں پر وفاقی حکومت اور برائے نام کی صوبائی اسمبلی کی توہین عدالت کے نوٹس جاری کرے
اس وقت وفاق میں مسلم لیگ ن برسر اقتدار ہے اور گلگت بلتستان میں انتخابی موسم بھی قریب آچکا ہے اور حال ہی میں صدر مملکت پاکستان جناب ممنون حسین نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے دورے پر منعقدہ تقریب سے خطاب میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت دینے کی نوید سناتے ہوئے وفاقی پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کا مسئلہ حل کرنے کی امید دلائی ہے گلگت بلتستان کے عوام کو صدر مملکت کے خطاب کے بعد یہ امید ہے کہ آنے والے الیکشن میں اپنی پیشرو حکومت کی ماورائے آئین اور ماورائے عدالت غلطیوں کو نہ دہرائیں اور گلگت بلتستان کیلئے وفاقی سپریم کورٹ آف پاکستان کے1999کے فیصلہ کی روشنی میں اپنا منشور بناکر انتخابات کرائیں تاکہ ملک عزیز پاکستان کے اصل اٹوٹ انگ گلگت بلتستان کے عوام کی آئینی محرومیوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے