کالمز

سوشل میڈیا

آج کا سوشل میڈیا کا بڑا چرچہ ہے اسکی فوائد اور نقصانات پر کافی بحث چل رہی ہے ۔قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ سوشل میڈیا سے مراد انٹرنیٹ بلاگز،سماجی روابط کی ویب سائٹس،موبائل ایس ایم ایس ہے جن کے ذریعے خبریں اور معلوماتی مواد کو فروغ دیا جاتا ہے۔آج کے دور میں اسکی اہمیت اور ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاروائتی میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کارباری حضرات بھی معلومات عوام تک پونچانے کیلئے سوشل میڈیا کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے بھی ذیادہ مقبول ہو رہے ہیں اسکی اصل وجہ عوام کا سوشل میڈیا سے منسلک ہونا ہے۔

my Logoہمارے خطے کے حوالے سے اگر بات کریں توہم میں سے ہر کسی کو شکایت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا خراب ہے یہاں حقائق سے ہٹ کر مواد شیر کیا جاتا ہے جس کے باعث معاشرے میں افراتفری کا خدشہ پیداہوتاہے لیکن میں سمجھتا ہوں سوشل میڈیا معاشرے میں ضرورت بن چکی ہے اگرہم حالیہ دور میں مسلم دنیا کی طرف دیکھیں تو ایک طرف اقتدار کی جنگ چل رہی ہے تو دوسری طرف حیات کی طلب میں مسلمانوں کے گھر اُجڑ رہے ہیں ایک طرف نظریات کو تھوپنے کی جنگ ہے تو دوسری طرف نظریئے کو درست کرنے کی  کوشش کیلئے لوگوں نے سوشل میڈیاکو واحد زریعہ بنایا ہوا ہے.

ہمارے گلگت بلتستان کامسلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست دان سے لیکر عام آدمی تک مسلک کو مفاد کیلئے جیب میں لیکر گھومتے ہیں جہاں کہیں بھی کسی مسلے پر پسپائی کے آثار نظر آئے فورا مسلک کا کارڈ استعمال کرتے ہیں سوشل میڈیا کی  بھی ایسی ہی صورت حال ہے. کسی سے کسی معاملے پر بحث کرنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے یا معاشرتی مسائل اور معلومات کے حوالے لاعلمی دور ہو جاتی ہے لیکن یہاں بھی وہی مسلہ اگر میں شیعہ ہوں اور میں نے دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے کسی غلطی کی نشاندہی کی تو فورا مسلک کا کارڈ یہاں استعمال ہوتا ہے. بلکل اسی طرح کسی دوسرے مسلک کا کوئی تیسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علاقے یا شخصیت کے بارے کوئی بات کریں تو بھی وہی چھاپ لگ جاتا ہے. پس ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بجائے سوشل میڈیا پر تنقید کرنے کے سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جو کہ علمائے کرام اور درس گاہوں کا کام ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں اسکولوں میں تعلیم بھی پاس ہونے کیلئے پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے.

ہمارے معاشرے میں ہم نے کبھی کسی اُستاد یا عالم کو معاشرتی اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے کبھی کسی سرکاری اور نجی اسکولز یا مدرسے میں درس دیتے ہوئے دیکھا نہ سُنا لہذا ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ مسلہ معاشرتی تربیت کا ہے نہ کہ بیچارہ سوشل میڈیا کا۔میرے نزدیک سوشل میڈیا اظہارے رائے کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے اور حالیہ انقلابی تحریکوں میں سوشل میڈیا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے صرف یہ نہیں اب تو سوشل میڈیا کو دین کی تبلیغ کیلئے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے اسی طرح مجھ جیسے ایک عام آدمی کیلئے کسی بڑی شخصیت تک اپنا کوئی بات پہنچانی ہو یا کسی بھی حوالے سے کوئی رائے دینا ہو تو عام حالت میں ممکن نہیں لیکن سوشل میڈیا کی وساطت سے عام آدمی بھی سربراہ مملکت تک رسائی کرسکتا ہے علمی حوالے سے بات کریں تو علمی تحقیق کے حوالے سے سوشل میڈیا ایک بہترین ذرائع ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں ایک نئے لکھاری کو مضمون چھپوانے کیلئے بھی کچھ اخبارات میں اسررسوخ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سوشل میڈیا نے مجبوریوں کو ختم کرکے اظہار رائے کیلئے ایک وسیع پلیٹ فارم فراہم کیاجہاں سے ہم اپنی آواز کو کوسوں دور تک پونچا سکتے ہیں۔لہذا ہمیں سوشل میڈیا کو کوسنے کے بجائے ہماری خرابیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں محلے کا مولوی ہمیں استعمال کرکے معاشرتی انتشار پھیلانے میں کردار ادا تو نہیں کر رہے ہیں؟کیونکہ مولوی ازم اب ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے جو انفرادی مفاد کیلئے عقیدے کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے.

ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے ہی اطراف پرنظررکھنے کی ضرورت ہے کہ کون اس پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرکے علاقے اورعقیدے کو خراب کر رہے ہیں کیونکہ اگر کسی خاص عقیدے کے نام پر کوئی بھی شخص کسی قسم کی شرانگیزی پھیلاتے ہیں تو اُس کی زد میں پورا معاشرہ آتا ہے اور معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں ابہام پیدا ہوتے ہیں لہذا سوشل میڈیا کے استعمال کا کنٹرول ہم گھر اور محلے سے کرسکتے ہیں بات صرف ذمہ داری کو سمجھنے کی ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی مسلے کو وسعت قلبی کے ساتھ سمجھتے ہوئے اظہار رائے پیش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معذرت کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ شخصیات اور اہل قلم حضرات ایسے بھی ہیں جو غصہ پہلے دکھاتے ہیں اور مسلے کی گہرائی کے حوالے سے بعد میں سمجھتے ہیں لہذا ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اوپر معاشرتی ذمہ داری ہے جسکا احساس مسلک اور عقیدے سے ہٹ کر ہونے کی ضرورت ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان میں نظریات کی جنگ ہے جس کیلئے سوشل میڈیاکو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ہمارا اصل مسلہ حق خودارادیت ہے جس کیلئے ہم سب ملکر کوشش کرکرنے کی ضرورت ہے لیکن بات وہی کسی کو خوف ہے کہ اگر گلگت اور بلتستان کو ملکر ریاست کا درجہ مل جائے تو ہمارا کیا ہوگا کسی کی خواہش ہے کہ گلگت کے عوام کسی بھی طرح موجودہ آذاد کشمیر کے گُن گائے اورکہیں فکر ہے اُس ریاست کی جو طلوع ہوتے ہی سازش کاہو گیا تھا یعنی ہر ایک کا اپنا ایک فارمولاہے جسے سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے لیکن اُسی فارمولے کو عقیدے کی عینک سے دیکھیں تو غلامی میں طوالت کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں۔

آج سے 10 سال پہلے  زمانہ طالب علمی میں جب سوشل میڈیاکا کوئی وجود نہیں تھا مجھے یاد ہے کہ ایک اگر کالم لکھنا ہو تومقامی ہفت روزوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا یا خطے کے حوالے سے کسی کتاب کا سہارا لینا پڑتا غربت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ کتاب خریدنے کیلئے جیب میں پیسے بھی نہیں ہوتے تھے مضمون لکھنے کے بعد اخبارات کو رجسٹری کرنے کیلئے سوچنا پڑتا تھا لیکن جب سے سوشل میڈیا وجود میں آیا تمام تر معلومات میرے موبائل میں ہی مل جاتے ہیں انٹرنیٹ کی بدولت آج یہ سارے مسائل ختم ہوگئے۔اسکے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں کس قسم کی خیالات کے لوگ بستے ہیں لہذا معاشرتی مسائل اور لوگوں کے بارے میں مضمون لکھنا ایک پیچیدہ مسلہ تھا لیکن سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ہم معاشرے سے دور رہ کر بھی معاشرتی معاملات سے مکمل اگاہ رہتے ہیں یوں لکھنے والوں کیلئے چاہئے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوآسانی ہوجاتی ہے کہ وہ معاشرتی مسائل کے بارے میں حکومت وقت تک عوام کی آواز پونچائیں۔

آخرمیں موضوع کو سمیٹتے ہوئے گزارش کروں گا کہ اس پلیٹ فارم کو معاشرتی اصلاح کیلئے استعمال کرنے کی ترغیب دیکر معاشرتی انتشار کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں اسی طرح سیاسیحقوق کی حصول کیلئے بھی اس پلیٹ فارم کے ذریعے بہترین کردار ادا کیا جاسکتا ہے سیاسی مراعات یافتہ طبقے کی کرپشن ہو یا حکومتی بدانتطامی کے حوالے سے سوشل میڈیا ہی واحد پلیٹ فارم ہے جہاں سے عام آدمی بھی ایسے عناصر کو بے نقاب کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔آج ہمارے خطے تمام اخبارات بھی آن لائن ہے اور اخبارات بھی سوشل میڈیا پر توجہ دے رہے ہیں لہذا سوشل میڈیا ہمارے اپنے کنٹرول میں ہے آپ جس طرح استعمال کریںیہ آپکی علمی دینی معاشرتی اور گھریلو تربیت کی عکاسی کرتا ہے ۔اللہ ہم سب کو ہر اچھی چیز کی بہتر استعمال کا توفیق عطا فرمائے آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button