سب کچھ بکتا ہے
تحریر عابد شگری
facebook.com/abidshigri
ٓآپ کو اپنی فیکٹری کی ردی مال بیچنا ہے ؟ یا آپ نے نئی نئی دو نمبر کی فیکٹری لگائی ہے جس کو مارکیٹ کی ضرورت ہیں؟ کیا آپ نے مشہور کمپنیوں کی برانڈ کی کاپی اپنے چھوٹی سی گھر کی تہ خانہ میں بنائی ہے جسے مارکیٹ میں سپلائی کرنی ہے؟ یا آپ کو کہی سے میعاد ختم ہونے والی کوئی مال غنیمت ہاتھ آئی ہے؟ کیا آپ کو ان چیزوں کو مارکیٹ میں لانے پر پولیس تنگ کرتی ہے؟ کیا آپ کی فیکٹری کو چھاپہ لگنے کا خدشہ ہے؟ یا آپ کو دکاندار آپ کی مال کو اپنے دکانوں پر رکھنے سے ہچکچاتے ہیں؟ Don\’t Worry اب ڈرنے اورفکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔میں آپ کو دنیا کی ایک ایسی خطہ دکھاتا ہوں جہاں کے مارکیٹ آپ کے ان مال کی انتظار میں ہیں۔یہاں ان مال کو چیک کرنے زائد المیعاد دیکھنے کا کوئی رواج نہیں۔بلکہ زائدالمیعاد اشیاء بیچنے اور خریدنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔یہاں کو پولیس، انتظامیہ اورایک ایسا محکمہ جو اسی کام کیلئے بنائی گئی تھی لیکن ایسا نہیں کرتا کیونکہ مال لانے،سپلائی اوربیچنے والے سب عوام ہی تو ہے۔ان پر رٹ کریں یا ان کے مال پکڑیں گے تو ظلم عظیم ہوگا۔جی ہاں یہ خطہ گلگت بلتستان ہے جہاں قانون تو ہے لیکن عملدرآمد نہیں۔انتظامیہ نامی شے ہے لیکن ان کو فرصت نہیں۔پولیس ہے لیکن انتہائی شریف ہیں۔جبکہ آئین سرے سے ہی نہیں۔
جی ہاں گلگت بلتستان خصوصا سکردو اور ان کے مضافاتی علاقے خصوصا شگر کا علاقہ ان مال کیلئے سب سے بڑی مارکیٹ ہیں۔جہاں پاکستان بھر سے ردی مال،خصوصا خیبر پختون خواہ کے علاقوں مانسہرہ ،کوہستان،بشام اور سوات کے علاقوں کے دیسی اور خود ساختہ غیر قانونی اور غیر معیاری فیکٹریوں سے بننے والی تمام اشیاء یہاں باآسانی دستیاب ہونگے۔کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ مال کہاں سے آیا ان اشیاء کی تیاری میں حفضان صحت کی اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے کہ نہیں ان فیکٹریوں کی پاس حکومت کی جانب سے ان اشیاء کی تیاری کیلئے این او سی ہے کہ نہیں ؟کیا یہ فیکٹریاں قانونی ہے؟ یہان کے دکانداروں کو ایک چیز کی ضرورت ہت کہ مال سستا اور منافع زیادہ تاکہ راتوں رات کڑور پتی بن جائے ان اشیاء کی استعمال کے بعد لوگوں کی صحت صحیح رہے یا نہ رہے اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں ۔یہاں کی مارکیٹ کی صرف یہی نہیں بلکہ مشہور کمپنیوں کی مشہور پراڈکٹ مثلا کولڈ ڈرنک، سگریٹ،شیمپو،بسکٹ،صابن،آئل،ٹوٹ پیسٹ،کریم اور دیگر اشیاء وہی قیمت میں آسانی سے دو نمبر میں مل جائے گا لیکن ایک نمبر بالکل نہیں۔ ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ بھائی جان اگر اصل مال ہم لائیں گے تو ایجنسی ان اشیاء کا منافع ہمیں پانچ فیصد سے نیچے دیتے ہیں لیکن پٹھانوں سے خریدنے پر انہی اشیاء نصف سے کم قیمت میں مل جاتی ہے تو ہمیں پاگل سمجھا ہے کہ وہ چیز لاؤں ۔اس دکاندار کا یہ بھی کہنا تھاکہ سکردومیں مشہور کمپنیوں کے برانڈ ایجنسیاں زیادہ منافع کی لالچ میں خود بھی دو نمبر اشیاء اپنے برانڈ میں مکس کرلیتے ہیں۔تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ مقامی دکانداورں کے بجائے دو نمبر اشیاء لانے والے غیر مقامی افراد کیساتھ تعاؤن کیساتھ اعتبار کرتے ہیں۔بشام اور سوات سائڈ سے چھوٹی اور بڑی گاڑیوں میں یہ حضرات ان دو نمبری اشیاء کو لاتے ہیں لیکن راستے میں کہی پر بھی ان کو چیک نہیں کیا جاتا ۔بلکہ باآسانی ان اشیاء کو یہاں کے دکانوں میں نہایت سستی ریٹ پر رکھا جاتا ہے۔جو یہاں کے سیدھی سادھی اور بھولی بھالی افراد شوق سے خریدتے اور کھاتے پیتے اور پہنتے ہیں۔انتظامیہ ،پولیس اور فوڈ انسپکشن کے نظروں کے سامنے ہونے کے باؤجود کوئی بھی نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان افراد کو فری ہینڈ دیا گیا ہو جہاں جی چاہے اپنے مال کو بیچو اور پھیلاؤ۔تشویش ناک بات یہ بھی کہ یہ افراد ان سامان کی لین دین کی آڑ میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونے کی بھی اطلاعات ہیں اگر واقعی اگر غیر قانونی اشیاء اور اسلحہ ان سامان کی بیج میں ان علاقوں میں لاتے ہیں تو یہاں کے حالات مزید بگڑنے میں مزید دیر نہیں لگیں گے۔