کالمز

پیپلزپارٹی میں بااختیار قائد کون ؟

ملکی سیاست اور حکومت 2014ء سے مسلسل غیر یقینی صورتحال کا شکار نظر آرہی ہے تاہم سندھ واحد صوبہ ہے جہاں بظاہر وفاقی یاصوبائی حکومتوں کو کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں تھا ، اگرچہ صوبائی حکومتی جماعت پیپلزپارٹی کوکرپشن اور اپوزیشن کی سب بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کوٹارگٹ کلنگ اور دیگر سنگین چیلنجز اور الزامات کا سامنا رہا ہے مگر اس کے باوجود صوبے میں کوئی بڑی سیاسی ہلچل نظر نہیں آئی،تاہم اب آثار ہیں کہ آئندہ چندہفتوں میں بڑی ہلچل ہوگی۔ اس ضمن میں 22مئی کو حیدر آباد میں سندھ ڈیموکریٹک الائنس کے کنونشن میں مسلم لیگ(ف) کے سربراہ پیر صاحب پگارا کی تقریر کافی اہمیت کی حامل ہے ۔ جنہوں نے ایک طویل عرصے کے بعد پہلی بار نہ صرف اپنے اتحادی اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر کھل کر تنقید کی بلکہ یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ اگر وزیر اعظم نوازشریف نے سندھ کے مسائل پر توجہ نہیں دی تو سندھ ڈیموکریٹک الائنس میں شامل دو وفاقی وزراء، ایک وزیر مملکت اور ایک معاون خصوصی مستعفی ہونگے ۔مسلم لیگ(ف) کے قریبی حلقوں کے مطابق5جون تک وفاقی حکومت نے مثبت جواب نہیں دیا تو5جون کے کراچی میں ہونے والے کنونشن میں وفاقی وزراء مسلم لیگ(ف) کے پیر صدر الدین شاہ راشدی ، نیشنل پیپلزپارٹی کے غلام مرتضی جتوئی ، وزیر مملکت مسلم لیگ(ن) کے عبدالحکیم بلوچ اور معاون خصوصی مسلم لیگ(ف) کے امتیاز احمد شیخ مستعفی ہونے کا اعلان کریں گے جو عملاً مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کے خاتمے اور علٰحدگی ہوگی ۔نواز شریف کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ دو سال سے ہم اپنے خدشات سے وزیر اعظم کو آگاہ کر رہے ہیں مگر کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا ہے اور حالیہ تقریباً دو ماہ سے اپنے مسائل کے حوالے سے بات چیت کے لئے وزیر اعظم سے ملاقات کا وقت نہیں مل رہا ہے ، اس ضمن میں وفاقی وزراء کو ذمہ داری دی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔

 سندھ میں نواز شریف کے اتحادی کافی عرصے سے ناراض ہیں مگر انہوں نے ابھی تک کھل کر نوازشریف سے الگ ہونے کا اعلان بھی نہیں کیاہے ، ناراض رہنماؤں میں مسلم لیگ(ف) ،نیشنل پیپلزپارٹی کی قیادت ، مسلم لیگ(ن) کے باغی رہنماء اور سابق وزرائے اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ، سید غوث علی شاہ ، سردار ممتاز بھٹو، لیاقت علی جتوئی اور دیگر شامل ہیں ۔اگر یہ سب نوازشریف سے اتحاد کے خاتمے کا اعلان کرکے اپوزیشن کے ساتھ شامل ہوتے ہیں تو پھر نواز شریف کے لئے ایک اور مشکل کھڑی ہوسکتی ہے ۔اسی طرح دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کے لئے بھی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اگرچہ ابھی تک سندھ ڈیموکریٹک الائنس کا نشانہ پیپلزپارٹی رہی ہے مگر اس میں وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہ ملنے پر الائنس کے لوگ کافی ناراض ہیں ۔مبصرین کے مطابق موجودہ حالات میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دوہری مشکل میں پھنس گئے ہیں ۔سندھ میں الائنس کی مدد برائے راست پیپلزپارٹی سے تصادم ہے اور مدد نہ کرنے پر سندھ کے اتحادیوں سے محرومی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں نواز شریف پیپلزپارٹی کی سخت ناراضگی اور نہ ہی سندھ کی اتحادی جماعتوں کی جدائی کے متحمل ہوسکتے ہیں ۔اس لئے جب تک مسائل حل نہیں ہوتے ہیں اس وقت تک دونوں کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کریں گے تاہم اس بار دونوں پورا پورا خراج وصول کرنے کے موڈ میں ہیں ۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے مابین بہتر تعلقات کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے حلقے لندن میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینزکے سربراہ آصف علی زرداری کی ملاقات کو اہم قرار دے رہے ہیں ۔

پیپلزپارٹی کی قیادت اگرچہ بلاول بھٹو زرداری کو سیاسی طور پر سامنے لے آئی ہے مگر قانونی طور پر پارلیمانی جماعت کی قیادت اور پارٹی کے اندر آج بھی فیصلہ کن حیثیت آصف علی زرداری کو حاصل ہے ، یہی وجہ ہے کہ بعض مواقع پر دونوں باپ بیٹے کی پالیسیوں میں تضاد بھی نظر آتا ہے ۔در اصل پیپلزپارٹی کے بیشتر رہنماؤں کی کوشش ہے کہ بلاول بے نظیر بھٹو کا فرزند ہونے کے ساتھ ساتھ فی الحال سیاسی الزامات سے پاک ہے اور عوامی سطح پر ان کو میدان میں اتار کر عوامی حمایت حاصل کی جائے اور کارکنوں کی خوائش بھی یہی ہے ، تاہم بیک ڈور اور حقیقی فیصلو ں کا اختیار سابق صدر زرداری کے پاس ہونے کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ ناخوش بھی ہے ۔ مبصرین کے مطابق یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گا کیونکہ بلاول بھٹو زرداری بھی اس کو محسوس کر رہے ہیں اور اگر انہوں نے کلی طور پر پارٹی کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا توسابق صدر آصف علی زرداری کے لئے کافی مشکل ہوگی ۔سندھ میں اس کے کچھ آثار نظر آنابھی شروع بھی ہوئے ہیں ۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صوبے میں تنظیم نو کے لئے سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑوکی سربراہی میں سندھ کوارڈینیشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے سیاسی امور راشد حسین ربانی،وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے محکمہ اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو،سینئر صوبائی وزیرسید مراد علی شاہ اور رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ ہیں کمیٹی نے 3ماہ کے اندر مشاورت کا عمل مکمل کرناہے۔اطلاعات کے مطابق کمیٹی کو صوبے میں کافی سخت رد عمل کا سامنا ہے ۔اس ضمن میں حیدر آباد میں ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا جب تنظیم نو کے معاملات پر سینئر صوبائی وزیر سید مراد علی شاہ اور وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی عبدالجبارخان میں نہ صرف تلخ کلامی ہوئی بلکہ معاملہ گریبانوں تک پہنچ گیا، اسی طرح دیگر اضلاع میں بھی کافی مشکلات پیش آرہی ہیں غالباً یہی وجہ ہے کہ کمیٹی نے اپنا کام فی الحال مؤخر کردیاہے ۔ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کا حکم ہے کہ نظر یاتی لوگوں کو ذمہ داری دی جائے مگر نظریاتی اور پرانے کارکنوں کو شکایت ہے کہ کمیٹی بار بار پارٹیاں بدلنے والوں کو ایک مرتبہ پھر مسلط کرنا چارہی ہے ، اگر کارکنوں کا یہ الزام درست ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کمیٹی یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کر رہی ہے یا کسی اور کا حکم ہے ؟

اسی طرح پیپلزپارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بلدیاتی اداروں کے انتخابی عمل میں تاخیرکی بھی پارٹی کے حکمراں گروپ کو سمجھتی ہے ۔جن کا موقف ہے کہ حکومت دانستہ طور پر تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے ۔مجموعی طور پر پیپلزپارٹی کی قیادت نے ’’پاکستان پیپلزپارٹی پارلمینٹرینز(پی پی پی پی) ‘‘اور’’ پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی)‘‘ایک ساتھ چلانے کی کوشش کر رہی ہے مگرتو اگے چل کراس سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور بعید نے نہیں کہ سیاست کی بے رحمی باپ اور بیٹے کو سیاسی راستے جدا کرنے پر مجبور کردے ،ویسے بھی مسلمانوں کی تاریخ میں اقتدار کی جنگ میں باپ بیٹے کے کردارکچھ زیادہ مثالی نہیں رہے ہیں، اس لئے پیپلزپارٹی کو یہ فیصلہ کرکے پاکستانی عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ اصل پارٹی کونسی ہے اور با اختیار قائد بلاول بھٹوزرداری یا آصف علی زرداری ہیں ؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button