ایک اور چراغ بُجھ گیا
از:جاوید علی حسرت
ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی جمہوریہ میں اب نہ جمہوریت رہ گئی ہے نہ اسلام نام کی کوئی چیز۔جہاں ایک طرف دہشت گردو ں کی دہشت اپنے عروج پہ ہے وہی اسی دہشت گردوں اور دہشتگردی کو تقویت دینے کیلئے سیاسی اور مذہبی لبادہ اوڑھے مجاہدین اپنے محاز پہ کھڑے ہیں۔کون کسے روکے؟ ان کا ہر عمل عبادت ہے اور ہر عمل کا عوز جنت کی ٹکٹ مل جاتی ہے ۔کون روک سکتا ہے جنت سے؟ بلکل ہر کوئی جنت میں جاناچاہے گا۔اسی اسلامی پاکستان میں جہاں عورت کی نمود و نمائش کی جا تی ہے وہی پہ معصوم بچوں کا استحصال ہو رہا ہے۔یہاں اسلام کے نام پہ اتنی اچھی تربیت کی جاتی ہے کہ سحربتول آ ف کوئٹہ کو اسلامی مُلائیت اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر جنت میں حوروں سے بیاہ رچاتے ہیں اوریہی طوفان نوح و اندھی لوط گلگت بلتستان جیسے جنت نظیر بے آباد و بے آئین سر زمین کو اپنی لپٹ میں لیتی ہے ایک اور حسنین کا چراغ گُل کرتی ہے۔
جلنا تو چراغوں کامقدر ہے ازل سے
یہ دل کے کنول ہے کہ بُجھے کہ جلے ہے
کسے کرے شکوے کسے کرے گلے۔سب مجرم خاموش کھڑے ہے۔اس سر زمین پاک میں ایک خود مختار شہری اپنے گھر سے باہر جاتے ہوئے لرز جاتا ہے اس سے شام کو گھر واپس آنے کی آس نہیں ہوتی۔اب گلگت بلتستان کو سنبھالنا ہوگا،کلعدم تحریک طالبان پہنچ چکے ہے اب آرام دہ بستر پہ بیٹھ کے امن امن کا نعرہ ۔۔۔۔!GBاب خفیہ ایجنسیوں کی آمجگاہ بن چکا ہے ۔اس بے آباد و غیر آئین سرزمین کو اپنی ہوا و ہوس اور زیادتی کا نشانہ اسطرح بناتی ہے کہ قائد اعظم کی روح تڑپ کے کہتی ہوگی۔اے مرے قاتلو! اے میروجعفر!اے لیاقت علی خان کے قاتلو! اب تو خُلد بریں میںآرام کر نے دو۔۔۔!17مئی1988 کے زخم اب تک مندمل نہیں ہوئے ہیں کہ اب پھر گلگت بلتستان کے سادہ لوح عوام کو لوٹنے ،الیکشن کے نام پہ فراڈ کب تک۔۔۔۔؟بے آئین میں بے نظام اور میڑک پاس افراد حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔اور بڑے ہی فخر سے کہتے ہیں ہمارے دور میں اتنی ترقی ہوئی کہ میڑک پاس چیف سیکڑری بن جاتا ہے اور بے چارہ جاہل پی ایچ ڈی اسی میڑک پاس چیف سیکڑری کے دربار میں ۔۔۔؟جب کسی بشر کا ضمیر مُردہ ہو جا تا ہے تو ہجیان بکنا شروع کرتا ہے ۔اس سے نہیں پتہ چلتا کہ وہ کیا کہے جا رہا ہے۔ یوں تو بہت سے واقعات مگر حسنین کے واقعے نے ایک بار پھر انسانیت کا سر شرم سے جُھکا دیا ہے۔گلگت بلتستان کی تاریخ کا انہونی اور منفرد ایسا حادثہ شاید اس سے پہلے نہیں ہوا ہوگا،جہاں وقت کے ناقبت اندیش اور تربیت سے عاری درندوں نے معصوم کا خون بہایا۔اس پہ حکومت مذمت کرتی ہو ئی نظر آتی ہے مگر یہ پورے پاکستان کا ہمیشہ سے وطرہ رہا ہے کہ ڈرون حملہ ہو مذمت ،دھماکہ ہو ،ٹارگٹ کلنگ ہو مذمت ۔یار بس بھی کر دو مذمت مذمت۔۔۔؟ کیا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔کب دو گے مجرم کو سزا، عدالت خاموش تماشےئی بنی بیٹھی ہے۔تحریر نامکمل،چراغ بُجھ جا تا ہے ،تحریر ختم ہوجاتی ہے،اندھیرے سر اُٹھا رہے ہو تے ہے۔کوئی نہیں سائل،چراغ کیوں بُجھتا ہے۔
تھک جاؤ گے تم چراغوں کو بُجھاتے بُجھاتے
ہم ہیں اپنے لہو سے چراغوں کو جلانے والے