ناخوشگوار واقعے کے بعد پرنسپل اور فیکلٹی ممبرز کی معطلی ناانصافی ہے، انتظامیہ اصل مجرموں کو سزا دے، جی بی پی ایل اے کا مطالبہ
گلگت (نمائندہ خصوصی ) گلگت بلتستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کی صوبائی کابینہ کا ایک ہنگامی اور غیر معمولی اجلاس ایسو سی ایشن کے آفس میں منعقد ہوا۔ جس کی صدارت ایسو سی ایشن کے صدرپروفیسر محمدزمان نے کی۔ اجلاس میں ایسو سی ایشن کے تمام عہدیداروں جن میں انجم علی، ناہیدہ کریم، محمد علی، فضل کریم، گل صباء، اعجاز احمد خان اور اشتیاق احمد یاد نے شرکت کی۔جبکہ حسن شاد اور ارشاد احمد ٹیلیفونککلی اجلاس میں شریک ہوئے۔ یہ غیر معمولی اجلاس گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز جوٹیال گلگت میں پیش آنے والے نا خوشگوار واقعہ اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے جائزے اور لائحہ عمل طے کرنے کے لئے بلایا گیا تھا۔اجلاس میں کابینہ کے تمام عہدیداروں نے ڈگری کالج جوٹیال میں پیرکے روز رونما ہونے والے افسوس ناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور دلی افسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے کالج کے پرنسپل پروفیسر سر باز خان ، لیکچرر منور حسین، لیکچرر فدا حسین اور لیکچرر امیر جان حقانی کی معطلی کو سراسر نا انصافی اور زیادتی قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام سے ان کی معطلی کومنسوخ کرنے/ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ایسو سی ایشن کے عہدیداروں نے کہا کہ بے گناہ پرنسپل اور فیکلٹی ممبرز کو معطل کر کے ان کی عزت نفس مجروح کی گئی ہے اور ہتکِ عزت کی گئی ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کے دوران ڈائریکٹر کالجز ڈاکٹر میر احمد جان ، پرنسپل اور فیکلٹی ممبرز نے کالج کو اپنا گھر جیسا اور طلباء کو اپنی اولاد جان کر اپنی جان کی بازی لگا کر کئی لاشوں کو گرنے سے بچایا جس کے شاہد کئی لوگ ہیں۔مگر یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ متعلقہ حکام کی جانب سے مذکورہ آفیسرز کے اس انتہائی مثبت کردار کو سراہنے اور انہیں ایوارڈ سے نوازنے کے بجائے انہیں معطل کیا گیا۔ہم چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد معطلی کے احکامات کو واپس لیکر انہیں با عزت طور پر بحال کریں اور تعریفی اسناد سے نوازیں۔
اجلاس میں مزید کہا گیا کہ گلگت بلتستان حکومت اور انتظامیہ واضح طور پر قانون سازی یا پالیسی سازی کے ذریعے احکامات جاری کریں کہ اس طرح کے مذہبی پروگرام تعلیمی اداروں میں منعقد کئے جا سکتے ہیں یا کہ نہیں اور اس پالیسی پر عمل در آمدکو ہرحال میں نافذ کرنے کو یقینی بنایا جائے۔
عہدیداروں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ حالات کے قابو ہونے کے کچھ وقت کے بعد ڈائر یکٹر ایجوکیشن کالجز اور پرنسپل کی سربراہی میں کالج کے فکلٹی ممبرز کا اجلاس ہو رہا تھا کہ اُس دوران اے سی گلگت وہاں تشریف لائے اور درخواست کی کہ آپ سب کالج سے چلے جائیں انتظامیہ اور سکیورٹی والے کنٹرول سنبھالینگے۔ جس کے بعد ڈائر یکٹر ایجوکیشن کالجز، پرنسپل اور فکلٹی ممبرز کالج سے نکل گئے۔ جس کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد کالج کی عمارت میں آگ لگنے کی اطلاع ملی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت انتظامیہ اور سکیورٹی فورس کہاں تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ کی انکوائری کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جسے ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کمیٹی مکمل طور پر میرٹ اور شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے اصل ملزمان کی نشاندہی کرے گی۔
ایسو سی ایشن کے عہدیداروں نے اجلاس کے دوران مزید کہا کہ متعلقہ حکام کی کوتاہیوں ، غیر ذمہ دارانہ روّیے اور مس منیجمنٹ کے باعث بار ہا اپیل کرنے کے باوجود موجودہ کالج کی عمارت، سہولیات کے فقدان اور حالتِ زار پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور پچھلے سات سالوں سے مناور میں زیر تعمیر ڈگری کالج کے تعمیراتی کام کو بھی مکمل نہیں کروایا جا سکا۔ یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی اور الٹا نزلہ بے قصور اساتذہ پر گرایا جا رہا ہے۔
اجلاس کے آخر میں ایسو سی ایشن کے عہدیداروں نے گلگت بلتستان کے تمام والدین ، علماء کرام ، مساجد بورڈ کے ممبران ، اساتذہ کرام ، طلباء اور سول سوسائٹی سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ نوجوانوں کی صحیح نہج پر تربیت کریں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اپنے کردار کو مزید تیز کریں بصورت دیگر مستقبل میں نا قابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔