چترال: مضافاتی گاؤں شاہ میران دیہہ کوآلودہ پانی کی فراہمی
چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے مضافاتی گاؤں شاہ میران دیہہ میں پینے کے پانی چالیس سال پرانی پائپ لائن کے ذریعے لایا جاتا ہے۔ پائپ جگہ جگہ پھٹ کر پانی لیک ہورہا ہے۔
ان پائپوں میں جوڑ بھی ڈھیلے ہوچکے ہیں۔ پانی باہر نکل کر راستے میں بہتا ہے موسم سرما میں یہ پانی صبح کے وقت جم کر پھسلنے کا باعث بنتا ہے۔ پائپ لائن زیادہ تر گندی نالی کے بیچ میں سے گزر کر گھروں تک پہنچا ہے۔ جب پانی بند ہوجاتا ہے تو نالے کا گندہ پانی ان پائپ کے اندر چلاجاتا ہے جو پینے کے پانی کو آلودہ کرتا ہے اور یہ زہریلا پانی محتلف متعدی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
مقامی لوگوں نے ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شاہ میران دیہہ ، سینگور اور دیگر علاقوں میں بھی بوسیدہ پائپوں کو نکال کر ان کی جگہہ نئے پائپ لگائی جائے تاکہ ان پرانے پائپ سے پانی نکل کر جمنے کی صورت میں پھسلن کی باعث نہ بنے اور دوسری طرف ان کو گندہ نالی سے نکال کر محفوظ طریقے سے لایا جائے تاکہ نالی کا گندہ پانی ان پائپ کے اندر سوراحون کے ذریعے نہ جائےجو پینے کی پانی کو آلودہ کرکے محتلف بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
اس گاؤں میں 75 سالہ عبد اللہ خان بابا دن بھر پائپ رینچ ہاتھ میں پکڑ کے ان پٹے پرانے پائپو ں کا رضاکارانہ طور پر مرمت کرتا ہے۔ عبداللہ خان بابا جو ناحواندہ ہے وہ اردو میں بات تو نہیں کرسکتا مگر چترالی زبان میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ میں دعوت تبلیغ سے وابستہ ہوں اور انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے اسلئے میں بلا کسی معاوضے کے ان پرانے پائپ کو مرمت کرتا ہوں جہاں سے پانی نکل رہا ہے اسے ربڑ سے باندھ کر پانی بند کرنے کی کوشش تو کرتا ہوں مگر اس مسئلے کا یہ حل نہیں۔
ایک نوجوان طالب علم عبدل الرحمان کا کہنا ہے کہ میرے گاؤں میں چالیس سال پہلے پینے کی پانی پائپ لائن کے ذریعے لایا گیا تھا اب یہ پائپ اتنے پرانے ہوچکے ہیں کہ جگہ جگہ سے اس سے پانی سیپ کر صبح کے وقت راستے جم جاتا ہے جس پر راہگیر پھسل کر ا ن کا ہاتھ پاؤں ٹوٹنے کا حطرہ ہوتا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 36 کروڑ روپے کی لاگت سے گولین گول واٹر سپلائی سکیم کاغذوں میں تو مکمل ہوچکا ہے جس سے یہاں کے لوگوں کو یہ امید تھی کہ اس منصوبے کی تکمیل پر عوام کے پانی کا مسئلہ حل ہوگا مگر لوگ اب بھی پانی کیلئے ترستے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ واٹر اینڈ سینٹیشن WSU یونٹ جو میونسپل انتظامیہ کے زیر نگرانی کام کرتا ہے انہوں نے پانی کا بل سو روپے سے بڑھاکر ڈیڑھ سو روپے کر لیا مگر پانی کا نام ونشان نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گولین گول واٹر سپلائی سکیم کے بارے میں حکام نے یقین دہانی کرای تھی کہ گولین کا پانی دنین، جنگ بازار سے لیکر بکر آباد تک فراہم کیاجائے گا جبکہ انگار غون کی پانی کو چِیو پُل میں وال کے ذریعے بند کرکے اسے سینگور، شاہ میران دہ، سین لشت وغیرہ کو دیا جائے گا۔ سات جولائی کو رکن صوبائی اسمبلی سلیم خان نے گولین واٹر سپلائی سکیم کا افتتاح بھی کیا تھا مگر پانچ مینے گزرنے کے باوجود بھی یہ علاقہ پینے کی پانی سے محروم ہیں اور جنگ بازار، شاہی بازار کو بدستور انگار غون کی پانی فراہم کیا جارھا ہے۔